حکومت کی کارکردگی کا مطلب عوام کو ڈلیور کرنا ہوتا ہے۔لیکن بد قسمتی سے ملک کے حکمران صرف مفادات،اختیارات اور اقتدار کو دراز کرنے کے لئے ایسی ترامیم آئین میں بلاجھجھک کرتے نظر آ رہے ہیں جن کا مفاد عامہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ماضی میں بھی حکمرانوں نے کبھی عوام کے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا جس کے باعث عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا۔اب تو موجودہ سیاسی و معاشی بے یقینی صورتحال نے عام آدمی کو بدترین مہنگائی،بے روزگاری جیسے مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ایسے سیاسی و معاشی گراوٹ کے ماحول میں حکومت جب بند گلی میں چلی گئی ہے تو ادراک ہوا کہ مسائل کا حل مکالمہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔بڑا خوش آئند اقدام ہے حکومت کو یقیننا فیصلہ سازوں کی جانب سے گرین سگنل ملا ہو گا کہ اب مذاکرات ضروری ہیں۔پاکستان میں موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کا مستقبل کافی غیر یقینی نظر آتا ہے۔ناکامی کے امکانات کامیابی سے زیادہ نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کی غیر یقینی سیاسی صورتحال اور ماضی میں اس قسم کی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو مذاکرات کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی قسم کی پیشن گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔کیوں کہ ان مذاکرات کو اداروں سے فیڈ بیک لے کر ہی معاملات کو آگے چلایا جا سکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں دونوں اطراف اس بات کا احساس موجود ہے اور سو فیصد یقین ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔اور یہی وجہ ہے حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو ساتھ رکھا گیا ہے۔اور یہ بھی طے ہے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کسی بھی مطالبے پر حکومت کے لئے اپنے طور پر فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے راہنما کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اصل طاقت رکھنے والوں سے مذاکرات کرنا چاہیں گے۔مطلب حکومت نے مذاکرات کی آمادگی کا اظہار اور باقاعدہ آغاز فیصلہ ساز قوت کے اشارہ کے بغیر نہیں کیا۔ویسے بھی موجودہ حکومت کن بیساکھیوں پر کھڑی ہے یہ تو اب عام آدمی کو ادراک ہو چکا ہے۔بہر حال مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اس کے نتائج کا انتظار ہے کہ اب مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔حکومت اپنے نکات میں ضرور چاہے گی کہ موجودہ حکومت کو جائز تسلیم کیا جائے اور ان انتخابات کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے معاملات کو آگے چلایا جائے۔اور حکومت پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے سامنے یہ بات بھی رکھ سکتی ہے کہ 26 نومبر کے مقدمات کا پی ٹی آئی عدالتوں میں سامنا کرے۔ مذاکرات اگر سازگار رہتے ہیں تو پی ٹی آئی حکومت کو پرامن سیاسی ماحول،بیرون ملک حکومت مخالف سرگرمیوں میں کمی یا ختم کرنے کی آفر کر سکتی ہے۔سیاسی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عمران خان کی رہائی مذاکرات کا آخری مرحلہ تو ہو سکتا ہے پہلا نہیں ہو سکتااور تحریک انصاف کو بھی اس بات کا ادراک ہے۔اگر دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کا ماحول بن جائے تو پھر حکومت بھی مزید مقدمات نہ بنانے،سیاسی گرفتاریوں میں کمی اور پراسیکیوشن میں نرمی جیسے اقدامات پر غور کر سکتی ہے۔ایسا ممکن نہیں ہے کہ پہلے مرحلے میں ہی بھاری بھر کم مطالبات مانے یا منوانے جا سکیں یقیننا شروع میں چھوٹے چھوٹے مطالبات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا تا اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے میں آسانی ہو سکے۔اب پی ٹی آئی اپنے کون سے مطالبات سامنے لا سکتی ہے یہ اخذ کرنا دشوار ہے حکومت چاہے گی کہ پی ٹی آئی پہلے اپنے مطالبات سامنے لائے اس کے بعد معاملات کو آگے کس انداز میں بڑھایا جائے گا یہ بھی مذاکرات میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان طے ہو جائے گا۔اللہ کرے مذاکرات با مقصد اور مثبت سمت میں ہوں اور کامیاب ہو جائیں۔یہ ملک اب مزید سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا تو پھر شاید ہم بہت کچھ کھو بیٹھیں۔اب وقت احتجاج،مظاہروں اور عوامی طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا نہیں ہے ہمیشہ مسائل کا واحد حل مل بیٹھ کر مکالمہ کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔جبر کے ساتھ آپ مستقل طور پر کسی پر بھی اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے۔ملک میں اس وقت مہلک ترین مسائل ایسے ہیں جن کا فوری بندوبست ضروری ہے۔مہنگائی،بیروزگاری،غربت جیسے مسائل انسانی حیات پر گرہ لگا چکے ہیں عام آدمی کی زندگی کو ان مسائل نے سوہان روح بنا دیا ہے۔
بجلی اور گیس کے بھاری بھر کم بلوں نے تو عام آدمی کی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔دو وقت کی روٹی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے غریب آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ عام آدمی کےگھروں کی چار دیواری کے اندر بھوک اور غربت ناچ رہی ہے۔اور یہ بڑے خطرناک حالات کا اشارہ ہیں۔یہ مذاکرات بھی عام آدمی کے لئے ایک امید سے بڑھ کر ہیں۔اگر کامیاب ہو جائیں تو شاید مفادات،اختیارات اور اقتدار مل کر بانٹنے والے عام آدمی کی زندگی سے مسائل کو کم کرنے کے لئے اقدامات کر سکیں۔سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے اعداد و شمار تو بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں لیکن عام آدمی بے روزگاری، مہنگائی اور بھاری بھر کم بلوں کے باعث غربت کی دلدل میں پور پور ڈوب چکا ہے۔عام آدمی کے حالات تو اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس کے منہ میں دو وقت روٹی کا نوالہ میسر ہو۔روٹی، کپڑا،مکان،تعلیم اور صحت جیسی سہولیات عام آدمی کا بنیادی حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ لیکن اب وقت اور حالات کی ضرورت ہے کہ عام آدمی کی زندگی کو آسودہ حال کرنے کے لئے ضروری اور عملی اقدامات کئے جائیں وقت اور حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔عام آدمی کےحالات کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور مسائل کا حل کریں۔اگر اب بھی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے تو عوام کا حکومت پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا جو ایک بڑے خطرے کی علامت ہو گا۔