فرزانہ فرحت کی غزلیہ شاعری کا فکری و فنی اختصاص

تحریر۔۔ڈاکٹر منظر حسین،ڈین فیکلٹی آف ہمنٹیر و صدر شعبہ اردو رانچی یونیورسٹی آف انڈیا

4

اکیسویں صدی میں اُردو کی جن خواتین فنکاروں نے اپنی تخلیقی توانائی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ااُردو ادب و شاعری کے سرمائے میں بیش بہا اضافے کئے ہیں ان میں بلا شبہ ایک اہم اور نمایاں نام ڈاکٹر فرزانہ فرحت کا ہے۔ موصوفہ کا آبائی شہر لاہور ہے لیکِن رزاق ازل نے ان کی قسمت کے دانے عروس البلاد لندن میں بکھیر رکھے ہیں جنہیں چننے کے لیے وہ کئی دہائیوں سے لندن میں مقیم ہیں۔ فرزانہ فرحت کی علمی و ادبی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ آپ بیرون ملک اُردو کی نئی بستیوں میں اپنی تخلیقی توانائی کے باعث ادبی علمی دنیا میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہیں مصروف ہیں ۔ اورمختلف ممالک کی مختلف علمی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
. فرذانہ فرحت کو کئی قومی اوربین الاقوامی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا جسکی فہرستِ کافی طویل ہے ۔جسے دیکھ کر یہ مصرع بیساختہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے
خداکا دین ہے انسان کا مشہور ہو جانا
غزل اردوشاعری کی مقبول صنف ہے ۔اس کے اپنے مطالبات اور تقاضے ہوتے ہیں ۔غزل کا فن چاول کے دانے پر قل ہواللہ لکھنے کا فن ہے ۔غزل کی صنف میں دل کی بات دل کی زبان میں کہی جاتی ہے ۔فرزانہ فرحت اس ہنر سے پوری طرح واقف ہیں ۔انہیں کلاسیکی قدروں کا پاس بھی ہے اور وہ جدید شاعری کے رنگ و آہنگ سے بھی آشنا ہیں۔ وہ کسی خاص نظریہ یا رجحان کے بھی داعی نہیں۔ فرزانہ فرحت کی غزلیہ شاعری میں رومانی لہجے کا لطف بھی ہے اور عصری زندگی کے کرب کا بے با ک اظہارِ بھی۔ ان کا ایک اپنا تیور ہے ۔جس میں احتجاج بھی ہے اور معاشرتی زندگی میں پنپنے والی برائیوں کی اصلاح کا جذبہ بھی۔ وہ فکرِ سے زیادہ احساسِ کو اجاگر کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔اپنی باتوں کو تقویت بخشنے کے لیے چند اشعار پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔دیکھیے یہ اشعار
تیری جگہ یہ آئینے میں کس کا عکس ہے
خود آئینے سے اپنی یہ حیرت چھپا کے رکھ

تو مرا جو آج ہوتا تو مری بھی آج تجھ پر
کبھی جاں نثار ہوتی کبھی دل نثار ہوتا

ہیں خوف سے سہمے ہوئے انسان یہاں پر
اس شہر میں بارود کی یہ کیسی دھمک ہے

پروفیسر منظر حسین
ڈین فیکلٹی آف ہمنیٹر ؤ صدر شعبہ اردو
رانچی یونیورسٹی رانچی انڈیا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.