گڈ ٹو سی یو ۔۔۔۔۔نوازشریف

202

روداد خیال

صفدر علی خاں

بلاشبہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو گزشتہ 5برسوں کے دوران بہت نقصان اٹھانا پڑا ۔اس میں خود جماعت کی اعلیٰ قیادت کی کوتاہیاں بھی شامل ہیں ،سازشیں تو سیاست کا حصہ ہوتی ہیں ،جن حالات میں مسلم لیگ ن قائم ہوکر عوامی جماعت بننے کی جدوجہدکے ساتھ منظر عام پر رہی اس میں محلاتی سازشوں کے سانپ ڈستے رہے ،ہر موڑ پر انکے زہر کا تریاق ڈھونڈنے میں کامیابیاں مگر انکے قدم چومتی رہیں ۔یہاں تک کہ ن لیگ کے مقبول قائد نواز شریف کو تین مرتبہ وزارت اعظمیٰ کے اعزازسے نوازا گیا ،قوم کی بڑی توقعات رہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے عام لوگوں کی تکالیف کو فراموش کر بیٹھے ،پانامہ کیس میں جو جعلی سزا سنائی گئی اس پر نواز شریف کا”مجھے کیوں نکالا” والا بیانیہ کوئی متاثر کن تحریک شروع کرنے سے اسی لئے محروم رہا تھا کہ عوامی وعدے فراموش کئے گئے تھے ،قوم کیساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا جو بادشاہوں کا اپنی رعایا کیساتھ ایک عام وطیرہ ہوتا ہے ،پاکستان کو آزاد ہوئے 75برس بیت گئے مگر شاہی مزاج نہ بدل سکا ،شہریوں کو ہر لحاظ سے مساوی حقوق تفویض کرنے کی بجائے انہیں غلام بنانے کی روایات پر بیورو کریسی حسب منشا عملدرآمد کرتی رہی ۔بیورو کریسی کی وحشی طاقت کو عوامی حقوق سلب کرنے کا ایک ذریعہ بنایا جاتا رہا اور انتخابی منشور کے وقت عوام کو ریلیف دینے کے سارے دعوے دھرے رہ گئے ،ان حالات میں پھر کوئی مخالف اگر سیاسی فائدہ نہ اٹھاتا تو یہ اسکی حماقت ہی ہوسکتی تھی بہرحال دوسری جانب سے انکی کمزور جگہ پر گہرا وار کیا گیا اور عوام کے دلوں سے ن لیگ کی قیادت کیلئے نرم گوشہ ختم ہونے لگا ،اسی مقام پر پھر انکے خلاف سازشیں بھی بارآور ثابت ہوئیں ،کھوٹے سکوں کو میدان میں اتارا گیا ،پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کرکٹ کھیلتے ہوئے سیاست میں آ دھمکے اورپھر ایسے لگتا تھا جیسے انہیں سپورٹس کے کوٹہ پر وزیراعظم بنا دیا گیا ہو ،انکے تمام بڑے فیصلے عوام کے گلے پڑ گئے ،قوم اب تک انکے عالمی مالیاتی اداروں کیساتھ کئے جانے والے معاہدے بھگت رہی ہے۔حالانکہ چیئرمین تحریک انصاف تو عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے پر خودکشی کو ترجیح دینے کا برسر عام اعلان کرتے رہے تھے ،قوم کو ہوشربا مہنگائی سے چھٹکارہ دلانے والا ان کا نعرہ تو اقتدار کے پہلے سال ہی دم توڑ گیا ،ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر دینے والا وعدہ مذاق بن کر رہ گیا ،اس تناظر میں انہیں 5سال بھی پورے نہیں کرنے دیئے گئے اور لانے والے ہی ان سے اتنے تنگ آگئے کہ ان سے جان چھڑانے کیلئے پارلیمنٹ کے اندرسے تبدیلی کی لہر چلانا پڑی ۔یہاں پھر مسلم لیگ ن نے حب الوطنی میں ہی سہی سیاست میں بڑا نقصان اٹھایا اور 15مہینے کے دوران ورثے میں ملنے والے مالیاتی بحران کے نتیجے میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی خاطر اس قدر سخت اقتصادی فیصلے کرنا پڑے کہ عوام کا کچومر نکل گیا ،اکثر لوگ اب تک تمام خرابیوں کی ذمے دار ن لیگ کی سربراہی میں قائم ہونے والی اسی مخلوط حکومت کو قرار دے رہے ہیں ،میری دانست میں تو نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ کوئی بڑا دانشمندانہ اقدام نہیں تھا تاہم وہ جن شرائط پرآج واپس آئے ہیں ،انہیں قوم بجا طور پر ویلکم کررہی ہے ۔نواز شریف کی پاکستان آمد سے قبل انکے خلاف جھوٹے ہی سہی مگر عدالتوں میں قائم مقدمات میں انہیں جب قوانین کے تحت ضمانتیں ملیں تو کچھ مخالفین نے بڑا شور مچایا اور وہ مئی میں ریاست پر اپنے حملے سمیت تمام حالات کو کمال مہارت سے “گول” کرگئے وہ دن تو یاد کریں جب چیئرمین پی ٹی آئی ایک مقدمے میں عدالت کے احاطے سے گرفتار ہوئے اور چیف جسٹس بندیال نے انہیں فوری طور پر سپریم کورٹ لانے کا حکم جاری کیا ،اس پر عمران خان کو پولیس وین سے نکال کر بڑی مہنگی گاڑی میں بڑے پروٹوکول کیساتھ ایسے لایا گیا جیسے وہ کسی ملک کے وزیراعظم ہوں ،ملزموں کو وزیراعظم کا پروٹوکول دینے والے انہیں دیکھ کر عدالت میں برسر عام چہک اٹھے اور اس ملزم کیلئے انکے جملے “گڈ ٹو سی یو “کی بازگشت تو آج بھی سنائی دے رہی ہے تاہم نواز شریف بھی آج اپنے ذہن سے پروٹوکول والی روایت نکال دیں اور خالص عوامی لیڈر بن جائیں کیونکہ یہ انکے پاس اب آخری موقع ہے ،عمر کے جس حصے میں وہ اس وقت سیاست کو نیا موڑ دے رہے ہیں انکے پاس اب غلطی کی گنجائش نہیں، اپنی کوتاہیوں کا آج جلسے میں اعتراف کرتے ہوئے قوم کیساتھ “جادو کی جپھی” ڈالیں تو پوری قوم انہیں والہانہ انداز میں “گڈ ٹو سی یو “کہے گی ۔!

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.