ڈیجیٹل فراڈ
تحریر: خالد غورغشتی
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے توسل سے لاکھوں مجبوروں اور ناداروں کی کفالت ہوئی، یہ ایک قابلِ تحسین کارنامہ ہے۔ بعض ادوار میں اسی سے ملتے جلتے پروگرام تشکیل دیے جاتے رہے ہیں، جن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کے ذریعے بے شمار افراد کے گھر کا چولہا جلنے میں معاونت ہوئی۔ ہمارے ملک میں نہ جانے کیوں ہر کام کی گنگا الٹی ہی بہتی ہے؟ جب سوشل میڈیا نیا نیا متعارف ہوا تھا اس وقت موبائل میں کم فنکشن تھے، اس کا استعمال میسج اور کال تک محدود تھا۔ اس وقت بھی صارفین کو ایسے ایسے دھوکہ دہی کے پیغامات موصول ہوتے کہ عقلیں دنگ رہ جاتیں۔ کبھی کہا جاتا آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل نکل آئی ہے، اتنے پیسے فوراً جمع کرواؤ اور اپنا انعام فلاں قریبی مقام سے حاصل کرو، کبھی کہا جاتا کہ آپ نے یہ نمبر ملایا تھا آپ فلاں صاحب بول رہے ہیں نا، آپ کا اتنے لاکھ کا انعام قرعہ اندازی میں منظور ہوگیا ہے۔ بیس ہزار اسی نمبر پر جمع کروائیے اور اپنا انعام فلاں جگہ سے لے لیجیے، پھر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور جیتو پاکستان کے نام سے جدید ترین انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے دھوکہ دہی کا نظام متعارف ہوا، جس نے اگلی پچھلی سب کسریں پوری کر کے رکھ دیں۔ شاید ہی کوئی فرد ہمارے ملک میں ان کے دھوکے سے بچا ہو، ان کے پاس افراد کا قومی شناختی کارڈ نمبر کہاں سے آ جاتا ہے اور یہ کیسے کال کر کے قریبی مقامات پر انعام دینے کی پیش کش تک کر دیتے ہیں یہ سب کچھ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟ گزشتہ دنوں میری ایک انگلینڈ میں مقیم دوست سے اسی حوالے سے طویل گفتگو ہوئی، اس نے مجھ بتایا کہ یہاں تو جو بھی ایسا مکروہ دھندہ کرتا ہے فراڈ کال کے ذریعے ہمیں علم ہو جاتا ہے کہ یہ کسی دھوکے باز کی کال آئی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسا سافٹ وئیر متعارف کروایا جا سکتا ہے کہ دھوکہ دہی کرنے والے کی کال پر فیک نمبر لکھا ہوا آ جایا کرے؟
اولین سطور میں ذکر شدہ بات کو ذہن نشین کیجیے اور آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے کہ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا سے قبل بھی یہ دھوکہ دہی کا نظام موجود تھا لیکن سوشل میڈیا کی آمد کے بعد اس میں مزید برق رفتاری سے اضافہ ہوا۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ گوگل پلے سٹور پر ایسی لاتعداد ایپلیکشنز موجود ہیں جن کو ڈاؤن لوڈ کر کے ان پر نام پتا درج کرنے سے شکاری آپ کا مکمل ڈیٹا ہیک کر کے بلیک میل کرتے ہیں۔ ان میں نمایاں ایپس بلا سود قرض کی ہیں۔ جن کو ڈاؤن لوڈ کرنے کر کے اپنی مکمل شناختی تفصیل دینے کے بعد آپ ایسے ان شکاریوں کے ہتھے چڑھتے ہیں کہ جو موت تک چند ہزار سود دے کر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کچھ بھولے بھالے ہمارے بہن بھائی جب گوگل پلے سٹور سے ایسی ایپس کو ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو وہ نیچے دل کش وعدوں پر مبنی کمنٹس پڑھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ یہ فراڈ نہیں حالاں کہ یہ سب وہ خود لکھ رہے ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہمارے دوست نے ایسی ایک لون ایپ سے قرضہ کے لیے درخواست دی۔ اسے بتایا گیا کہ آپ کو شادی، کاروبار یا تعلیم کے لیے پیسے دیے جائیں گے۔ اس نے تعلیم کے لیے لکھ دیا۔ جب اس نے نام پتا لکھ دیا اور جیسے ہی شناختی کارڈ نمبر انٹری کرنے لگا اسے ایک خاتون کی کال آگئی کہ آپ کے پچیس ہزار منظور ہوگئے ہیں اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کر دیجیے تاکہ جلد از جلد قرضہ بھیجا جا سکے۔ اس نے مجھے کال کی تو میں فوراً صورت حال کو سمجھ گیا، میں نے مشورہ دیا، آپ شناختی کارڈ نمبر نہ ڈالیں گا میں ابھی آیا۔ میں جُوں ہی وہاں پہنچا تو میں نے اسے ان لون فراڈ ایپس کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو وہ چونک گیا۔ میں نے اسے بتایا کہ ایک رپورٹ کے مطابق قرضہ فراہمی کی 75 غیر قانونی ایپس نے سات لاکھ سے زائد افراد سے 500 ارب کا فراڈ کیا۔
یہ سُنتے ہی اس نے فوراً اپنا ڈیٹا ڈلیٹ کر دیا اور اس کام سے توبہ کی۔
ہمارے ملک میں کروڑوں افراد آن لائن ورکنگ میں ترقی کے لیے کوشاں ہیں لیکن جتنے فراڈ اب تک ہمارے ہاں اس دھندے میں سامنے آئے ہر شخص آن لائن ورکنگ سے خوف زدہ دکھائی دیتا ہے۔ انھیں کام کرنے کے باوجود جب لینے کے دینے پڑتے ہیں تو وہ جلد ہی مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہماری پنجاب کی شان وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ سے درد مندانہ اپیل ہے کہ نوجوانوں کو با روزگار بنانے کے لیے آن لائن ورکنگ کاروبار کو قومی دھارے میں لا کر رجسٹرڈ ورکنگ کا آغاز کریں تاکہ وہ دھوکہ دہی سے بچ کر اپنے لیے اور ملک کے لیے معاشی انقلاب کی راہیں ہمکنار کر سکیں۔