فائنل کال کا نتیجہ صِفر
تحریر: a ایڈووکیٹ
اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل عمران خان کی رہائی کی بابت ماضی قریب میں ہڑتالوں، جلسے، جلسوں، دھرنوں اور لانگ مارچ ایسی متعدد کوششیں کی گئیں مگرسب بے سود ثابت ہوئیں۔۔ بقول میر تقی میر۔۔۔ اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔۔۔ بالآخر پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے 24نومبر فائنل کال دی گئی جو رائی کا پہاڑ ثابت ہوئی۔ خیبرپختونخواہ کے خادمِ اعلی کی بھڑکیں کام آئیں اور نہ ہی سابقہ خاتون ِ اول بشری بی بی کا جذباتی ویڈیو پیغام اپنا اثر دکھا پایا۔ عمران خان آج بھی جیل میں ہیں اور مزید کتنا عرصہ جیل میں گزارنا پڑے گا اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ شیر شیر آیا کہانی کی مصداق روز روز کی ہڑتالیں، لانگ مارچ اور دھرنوں کی کالیں اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ یاد رہے انقلاب لانے کے لئے ہفتہ، دس یا پندرہ دن کی پیشگی تاریخیں نہیں دی جاتیں بلکہ اپنی آرامگاہوں اور موبائل اور کمپیوٹر کی بورڈز چھوڑ کر میدان کارزار میں نکلنا پڑتا ہے۔ انقلاب لانے کے لئے دس یا پندرہ دن کی پیشگی تاریخ دینے کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ آپ حکومت ِ وقت کو مجوزہ انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے لئے مناسب وقت اور سہولت کاری فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ بلا شبہ 24نومبر کی فائنل کال کا نہ کوئی والی وارث تھا نہ ہی سر اور نہ کوئی پیر۔
فائنل کال کی تمام تر توجہ کا مرکز وزیراعلی علی امین گنڈا پور تھے اورموصوف کی کارکردگی سوائے سرکاری وسائل استعمال کرنے کے کچھ نہیں ہے۔ انقلاب کے سب سے بڑے علمبرار گنڈاپور نے اپنی حفاظت کے لئے پشاور تا اسلام آباد کے لئے پندرہ سو سے زائد سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگوائی ہوئی تھی۔ یعنی موصوف کی حفاظت کی حفاظت اور ریلی میں نمبر گیم بھی پوری۔ پی ٹی آئی اندرون خانہ یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ علی امین گنڈا پور وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد اور پنجاب میں متعدد ممبران اسمبلی و اعلی ترین پارٹی عہدیدران کی پولیس کی جانب سے فرمائشی و نمائشی گرفتاریوں نے معاملات کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سے محبت رکھنے والے افراد نے پارٹی لیڈرشپ کوبرا بھلا کہنا شروع کردیا ہے۔ آخر ایسی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں احتجاج نام کی کوئی چیز دیکھنے کو نہ ملی؟ پی ٹی آئی پنجاب کی سیاسی قیادت کہاں تھی؟ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی صدر پرویز الہیٰ سیاسی منظر نامے سے ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اسلام آباد راولپنڈی کی 35لاکھ سے زائد آبادی اور ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں چند سو افراد بھی باہر نہ نکل سکے۔ پارٹی ہدایات کے باوجود ممبران اسمبلی پانچ اور دس ہزار افراد تو درکنار چند سو افراد بھی اپنے ساتھ باہر نکال نہ پائے۔ یہ بھی حقیقت ہے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر انقلاب انقلاب ہانکنے والے لیڈر اپنے گھروں اور محفوظ مقامات پر چھپ کر بیٹھیں گے تو عام ورکر اپنی تشریف لال کروانے کے لئے کیوں باہر نکلے؟ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ عمران خان کی فائنل کال کو پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی عوام نے یکسر مسترد کر دیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی صرف خیبر پختونخواہ اور بالخصوص پشاور تک ہی محدود ہوچکی ہے؟
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو موروثی سیاست کے طعنے مارنے والی پی ٹی آئی قیادت کو اب اندازہ ہونا شروع ہوچکا ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے لئے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے لئے مریم نواز کا احتجاجی ریلیوں، جلسے جلوسوں کو لیڈ کرنا کس قدر پارٹی کارکنان کے حوصلوں کو بلند کیا کرتا تھا۔ جبکہ یہاں صورتحال یکسر مختلف ہے عمران خان کی اولاد ابھی تک اپنے والد کو جیل میں ملنے تک نہیں آئی۔ یقینی طور پر پی ٹی آئی کارکنان میں مایوسی حد درجہ تک پھیل چکی ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی موجودہ قیادت پیراشوٹرز کے ہاتھو ں میں آچکی ہے۔ پارٹی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر پیپلز پارٹی کے سابقہ ٹکٹ ہولڈررہے ہیں اور تازہ ترین مثال پارٹی ترجمان وقاص اکرم شیخ ہیں، جنکی پی ٹی آئی کے لئے خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ شیخ صاحب چند سالوں بعد کسی اور پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔
دوسری جانب حکومتِ وقت کی جانب سے پورے ملک کو کنٹینرستان بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ احتجاج روکنے کے لئے پرویز مشرف حکومت کی کنٹینرز استعمال کرنے کی منحوس روایت کو ہماری جمہوری حکومتوں نے ثواب کا کام سمجھ کر جاری رکھا ہوا ہے۔ دنیا کو کیا دیکھا رہے ہیں کہ احتجاج روکنے کے لئے پورے ملک کو کنٹینرستان بنانے میں ہم کتنے ماہر ہیں؟ اس طرح کے حفاظتی انتظامات کی بابت پورے ملک کا معاشی، معاشرتی نظام سکوت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور اک اندازے کے مطابق احتجاج و حفاظتی انتظامات کی بدولت مملکت کا یومیہ 200 ارب روپے سے زائد کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی سیاست میں عوام الناس کو ذلیل و خوار کیوں کیا جارہا ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی و عسکری قیادت مل بیٹھ کر ریاست پاکستان کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل سے نکالنے کے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تاکہ روز روز کی احتجاجی سیاست سے عوام کی جان چھوٹ سکے۔