قصہ چھڑ گیا تابوت سکینہ کا …!

13

رخسانہ رخشی

تابوت سکینہ کا قصہ تو قرآن کریم میں پڑھا اور سنا تھا مگر کبھی یہ قصہ اس قدر انہماک سے توجہ طلب نہ ہوا جس قدر دوسرے قصے پڑھ کر توجہ دی جاتی ہے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ تو سبھی کو بار بار پڑھ کر یاد ہوگیا۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں رسول اللہ ﷺ کے علاوہ پچیس رسولوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے ناموں کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ نہ صرف ذکر ہے بلکہ ان ہستیوں کے ساتھ گزرے واقعات اور خدا کے عطا کردہ کاموں اور پیغامات کا ذکر بھی ہے۔ قرآن کریم سے عقیدت و احترام رکھنے والے ان تمام کو اور ان سے منسوب واقعات کو پڑھتے ہیں اور اپنے لئے راہ ہدایت تلاش کرکے باعمل ہونا چاہتے ہیں۔ حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ادریس، حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت ہاررون، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت الیسع، حضرت ذوالفکل، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت الیاس، حضرت یونس، حضرت شعیب، حضرت عیسیٰ، حضرت عزیر علیہم السلام اور حضرت محمد ﷺ کاذکر ہے۔ قرآن بھی ہمارے آخری نبی پر وحی کے ذریعے نازل ہوا۔ اسے دنیا کی واحد محفوظ اورافضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ جس تابوت سکینہ کا ذکر چل رہا ہے، اس میں بھی حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں۔ قرآن مجیدکے مطابق کہ جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اگر تم ایمان والے ہو تو یقیناً اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے۔ مندرجہ بالا سیاق و سباق کے پیچھے اصل کہانی تابوت سکینہ کی ہے جس پر اسرائیل آج کل ہلچل میں ہے۔ کیونکہ اسرائیل کو معلوم ہوچکا ہے کہ تابوت سکینہ کا نقشہ ایران میں ہے پھر اسرائیل تو تابوت سکینہ کو اپنے لئے بہت مقدس مانتا ہے اسی لئے وہ فکر میں ڈوب گیا کہ تابوت سکینہ کا نقشہ حاصل ہو تو وہ پھر اسے ڈھونڈنے میں آدھے سے زیادہ مسلم ممالک کو ادھیڑ کر رکھ دے پھر مسلمانوں کے لئے جس قدر بھی اس میں نفرت بھری ہے وہ نفرت اسے مسلمانوں کے قتل و غارت تک لے جائے۔ معلوم نہیں اسرائیل نے کبھی ہٹلر کی باقیات پر چڑھائی کیوں نہ کی اور یہ بھی ہمیں معلوم نہیں کہ مسلمان اسرائیل کے سامنے اس قدر کمزور کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال اسرائیل کی قسمت میں بے چینی، بے سکونی، کھلبلی، انتشار اور مسلم قوم کیلئے بغض و کینہ اور نفرت اسے ہمیشہ اتاولا اور ذہنی مریض بنائے رکھے گی اور یہی کیفیات اسے ٹک کر بیٹھنے نہ دے گی۔ دعا ہے اسرائیل کے ساتھ یہ اذیت ہمیشہ رہے اور وہ جس قدر مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرکے انہیں موت دے چکا ہے ایسے ہی ان کی اگلی نسل بھی بے چین روح کی طرح بھٹکے۔ ابھی تو اسرائیل کو یہ کھٹکا ہے کہ تابوت سکینہ مسلم ممالک میں سے کسی کے پاس ہے اور اگر اسے یہ سچ معلوم ہوجائے کہ وہ ہے کس ملک میں تو اس کے پاؤں سے زمین نکل جائے گی۔ وہ پھر مزید دندناتا پھرے گا ابھی تو اسی مخمصے میں ہے کہ اس کا نقشہ ایران کے پاس ہے مگر تابوت کہاں ہے، اس کی نشاندہی بھی کردینا چاہئے کہ اسرائیل کی تسلی کو یہ ضروری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بقول ایک پہنچے ہوئے بزرگ کے یہ کہ تابوت قیصرانی قبیلے کے علاقے غربن میں موجود ہے اور غربن علاقہ بھلا کہاں ہے؟ او یہ علاقہ غربن پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازیخان کی ایک تحصیل تونسہ شریف میں ہے۔ یہ بات حیران کرتی ہے کہ تابوت سکینہ اور وہ بھی پاکستان میں ! اس بات میں کتنی سچائی ہے خدا بہتر جانتا ہے۔ تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی کے قصے کافی سننے کو ملتے ہیں اور یہودی چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے قبضے میں لیں۔ ہیکل سلیمانی حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ عبادت گاہ کا نام ہے جسے ایک ظالم بادشاہ بخت نصر نے تخت و تاراج کردیا تھا اور تابوت سکینہ وہ تابوت کہلاتا ہے جس میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے تبرکات تھے۔ بنی اسرائیل اس کو لڑائی اور جنگوں میں مقدم رکھتے اور کامیاب ہوتے تھے۔ اسرائیل اس کی تلاش میں اسی وجہ سے ہے۔ ہیکل سلیمانی کے خاص مقام کی تعیین یا تابوت سکینہ کہاں ہے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ قرآن و حدیث میں بھی اس بارے میں زیادہ بحث نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ امت کا دنیا و آخرت کا کوئی معاملہ اس تابوت یا ہیکل کے مقام کو جاننے پر موقوف نہیں ہے لہٰذا مسلمانوں کے کرنے کو اور بہت سے کام ہیں امت کو اس کھوج میں نہیں پڑنا۔ بھلے ہی یہ تمام الہامی مذاہب کیلئے اہم ہے۔ ایرانی عقیدے کے مطابق امام مہدی کے آنے سے پہلے تابوت سکینہ کا ملنا بھی اہم سمجھا جا رہا ہے اور ایران کبھی بھی یہ نا چاہے گا کہ اس تابوت مبرک کو اسرائیل کے حوالے کرے کیونکہ اس تابوت کو پانے کے بعد اسرائیل مزید کون سی جنگی تسخیر چاہتا ہے پہلے ہی بہت تباہی تو مچا چکا ہے اب اسے کیا تسخیر کرنا ہے؟ فلسطین کے بچے، بوڑھے اور جوان تو شہید کردیئے لاکھوں کی تعداد میں ! کسی قوم کی نسلیں شہید کرنے کے علاوہ بھی کچھ اور چاہئے انہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آج بھی آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے یہودی ماہر اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں تاکہ اسے ڈھونڈ کر وہ اپنی اسی روحانیت کو واپس پا سکیں۔ تابوت سکینہ سے متعلق موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ اسے افریقہ لے جایا گیا۔ مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق و سطیٰ میں ہے۔ کچھ کے مطابق اسے انگلینڈ کے علاقوں میں بھی ڈھونڈنا چاہئے۔ کوششیں جاری رہیں مگر قیصرانی کے علاقے غربن پاکستان کی طرف ان کا دھیان نہیں جانا چاہئے ورنہ وہاں چڑھائی ہوجائے گی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.