سیاسی ورکر
اورنگزیب اعوان
سیاسی ورکر سیاست کی بساط میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے. تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی ورکرز کی وجہ سے اقتدار میں آتی ہیں. یہ سیاسی ورکرز ہی ہوتے ہیں. جو سیاسی جماعت کے منشور کو گھر گھر پہنچاتے ہیں. کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور کو مقبولیت اس کے ورکرز کی بدولت ملتی ہے. سیاسی ورکرز گلی، کوچوں، بازاروں، چوراہوں، کریانہ سٹور، حمام غرض ہر جگہ اپنی اپنی سیاسی جماعت کے منشور کا پرچار کرنےکے ساتھ ساتھ اس کا دفاع بھی کرتے ہیں. بسا اوقات تو بات تلخ کلامی تک پہنچ جاتی ہے. اور سیاسی ورکرز آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ہیں. سیاسی رنجش کے بڑھ جانے پر قتل و غارت گری بھی ہو جاتی ہے. اور متعدد سیاسی ورکرز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. سیاسی جماعتوں کے جلسوں، ریلیوں کی کامیابی میں بھی سیاسی ورکرز ہی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. وہ عوام کو جوق در جوق جلسہ گاہ میں لاتے ہیں. جلسہ یا ریلی میں کسی ناگہانی صورتحال میں انہیں جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے. یہ سیاسی ورکرز میلوں کی مسافت طے کر کےجلسہ گاہ پہنچ کر کئی کئی گھنٹے اپنے سیاسی قائدین کا انتظار کرتے ہیں. اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے سیاسی ورکرز کا کندھا استعمال کرتی ہے. مگر جیسے ہی وہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتی ہے. وہ اپنے سیاسی ورکرز کو نظر انداز کر دیتی ہے. ان سیاسی ورکرز کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا. یہ حکومت کی منفی پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں. لوگ انہیں برا بھلا کہتے ہیں. یہ پھر بھی اپنی سیاسی جماعت کے دفاع میں لگے رہتے ہیں. پاکستان کی 76 سالہ سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سیاسی ورکرز کو نظر انداز کیا گیا ہے. اقتدار میں آتے ہی سیاسی جماعتیں مخلص اور محنتی ورکرز کو نظر انداز کرکے سرمایہ دار ایجنٹوں کو نوازنا شروع کر دیتی ہیں. جس سے ان کا ورکر مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے. پاکستان مسلم لیگ ن کی تاریخ اس سلسلہ میں بہت ہی بھیانک ہے. اس نے کبھی بھی اپنے مخلص ورکرز کو عزت نہیں دی. جس کی وجہ سے اب اس کا مخلص ورکر بھی اس سے منہ موڑنے لگا ہے. حالیہ الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ورکرز کی کیثر تعداد ووٹ ڈالنے ہی نہیں گئ. کیونکہ اسے پتہ تھا. کہ ماضی کی طرح اس بار بھی اقتدار میں آکر قائدین نے ان کے لیے کچھ نہیں کرنا. ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے. سرمایہ دار، مفاد پرست مافیا کو ہی نوازنا ہے. آج ہر ضلع میں مخلص ورکرز سراپا احتجاج ہے. کیونکہ حکومت کی جانب سے مختلف سرکاری محکموں میں ورکرز کو ذمہ داریاں تفویض کی جا رہی ہیں. تاکہ حکومتی کارگردگی کو بہتر کیا جاسکے. مگر افسوس کہ مخلص ورکرز کے نام پر مفاد پرست، لوٹوں کو ان کلیدی عہدوں پر تعنیات کیا جا رہا ہے. پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ملکی سیاست سے مایوس ہوکر بیرون ملک چلے گئے ہیں. وہ سیاسی معاملات اور جماعت کے امور میں کوئی مداخلت نہیں کر رہے. جس کی وجہ سے پارٹی قیادت اور ورکرز میں خیلج پیدا ہوتی جا رہی ہے. وزیراعظم پاکستان محترم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف بھی سلسلہ میں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں. شاید انہیں پارٹی امور سے کوئی دلچسپی نہیں. اگر یہی صورتحال رہی. تو پاکستان مسلم لیگ ن جو صوبہ پنجاب کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے. ادھر سے بھی اس کا صفایا ہو جائے گا. پاکستان پیپلز پارٹی اپنے سیاسی ورکرز کو عزت دینے کے معاملہ میں قابل تعریف ہے. محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بعد اس کے ورکرز بھی شکوہ کرتے ہی نظر آتے ہیں. کہ پارٹی قیادت ان کو پوچھتی تک نہیں. یہی وجہ ہے. کہ صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا مکمل صفایا ہو گیا ہے. پاکستان تحریک انصاف اس سلسلہ میں خوش قسمت ہے. اس کے ورکرز اپنی سیاسی قیادت کے ساتھ عہد وفا کر رہے ہیں. پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اپنے سیاسی ورکرز کو خوب نوازا ہے. انہوں نے ہر ضلع کی سطح پر مختلف کمیٹیاں تشکیل دے کر ان میں مقامی ورکرز کو شامل کیا. جس کی بدولت آج ان کا ورکر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے بھی اپنی سیاسی جماعت، قیادت اور جماعت کے منشور کے ساتھ کھڑا ہے. جب تک سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ورکرز کو عزت نہیں دے گی. تب تک یہ زوال پذیر رہے گی. سیاسی ورکرز سیاست میں وہ مہرہ ہے. جو کسی بھی وقت سیاسی بساط پلٹ سکتا ہے . سیاسی جماعتوں کی بقاء اپنے اپنے ورکرز کو ان کا جائز مقام دینے میں ہی ہے. سیاسی ورکرز کو دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں نطر انداز نہیں کیا جاسکتا. امریکہ میں ٹرمپ کا دوبارہ اقتدار میں آ جانا بھی اپنے سیاسی ورکرز کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے. ورنہ امریکی اسٹیبلشمنٹ تو ٹرمپ کو ماضی کا قصہ بنا چکی تھی. مگر اس کے سیاسی ورکرز نے دن رات ایک کرکے اس کی صدارتی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کروایا. اور انہونی کو ہونی میں بدل دیا. سیاسی ورکرز کسی بھی سیاسی جماعت کی بقاء کی علامت تصور کیے جاتے ہیں. ان کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت اپنا وجود اور کامیابی برقرار نہیں رکھ سکتی.
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک