کتابیں رو رہی ہیں
تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی
میں قدیم و جدید کے دوراہے پر کھڑی اس نسل سے ہوں کہ جس نے کتب بینی کے ماحول کو بھی پایا اور اب اس کا نوحہ بھی سن رہا ہوں۔ ایک وقت تھا کہ جب مطالعے کا واحد ذریعہ کتابیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ پڑھنے کے لیے کتاب کا حصول ایک ایسا ہی مرحلہ تھا کہ جیسے محبوب سے ملنے کے لیے عاشق کی تگ و دو۔ مرضی کی کتاب مل جانے کی خوشی اور پھر اس کی حفاظت کا جنون انسان کو ایک ایسے جزبہ سے روشناس کراتا تھا کہ لمحہ بہ لمحہ کتاب دوستی اور کتاب شناسی کا ماحول پروان چڑھتا۔ پھر محبوب کا چہرہ بھی کتابی٫ آنکھیں غزل٫ گفتگو مصرع غرض ہر استعارہ کتاب سے کشید ہوتا تھا۔ یوں کتاب قاری کو بتدریج فہم و ادراک، خود شناسی، برداشت، مکالمہ اور تہذیب سے روشناس کراتی۔
مجھے شروع سے ہی تاریخی ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ نسیم حجازی کے تمام تاریخی ناول میں نے اسی شوق کے باعث پڑھ ڈالے۔ اس طرح مجھ میں مطالعہ کی عادت پیدا ہوگئی اور بات تاریخی ناولوں سے ہوتی ہوئی سفر ناموں٫ سسپنس، جاسوسی ناولوں، آپ بیتیوں اور دیگر معیاری کتب تک جا پہنچی۔ کتاب پڑھنے کے لیے میں نے کبھی وقت کا انتظار نہیں کیا بلکہ جیسے ہی فراغت ملی اپنی مرضی کے موضوع پر کتاب اٹھا لی اور آنکھوں و دماغ کے بوجھل ہونے تک پڑھتا رہا۔ پھر بھی اگر مجھ سے پوچھا جائے تو صبح سویرے اور رات کے وقت کو مطالعہ کے لیے بہتر گردانوں گا کیونکہ ان اوقات میں سکون زیادہ ہوتا ہے جو کتب بینی کے لیے بہت ضروری ہے۔
کتب بینی کا درست طریقہ یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر قبلہ رو بیٹھتے ہوئے آغازِ مطالعہ کیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ طبیعت فریش ہو اور جگہ پرسکون ہو جہاں روشنی کا بھی مناسب بندوبست ہو تاکہ آنکھوں پر بےجا زور نہ پڑے۔ ایک وقت میں ایک ہی موضوع کا مطالعہ کرنا اور ایک ڈائری پر قابل زکر اور قابل وضاحت باتوں کو نوٹ کرتے جانا بھی مطالعے کے بہترین ثمرات کا موجب بنتا ہے۔پڑھی گئ باتوں کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کرنا یا اس کو دوسروں تک شیئر کرنا بھی علم میں برکت کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی کتاب کو ایسے پڑھنا چاہیے کہ جیسے یہ آخری موقع ہے۔ اس طرح مطالعہ جاندار رہتا ہے اور قاری بےجا ورق گردانی پر وقت ضائع کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔
کسی دانشور کا قول ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی ہمارا واسطہ کتابوں سے پڑتا ہے جو ہمیں زندگی گزارنے کی راہ دکھاتی ہیں۔ لکھاری ہمارے معاشرے کے حساس ترین اور جزبات سے بھرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ قاری کا جیسا مزاج ہوگا وہ اسی قسم کے لکھاری کو پڑھنا پسند کرے گا۔ اس لیے لکھنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے قاری کو اپنے انداز تحریر سے ہیپناٹائیز کرتے ہوئے مثبت قدروں سے روشناس کرائے۔ اسے معاشرے کا مفید کارکن بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ڈرامے٫ فلمیں٫ لیڈروں کی تقاریر٫ اخبار اور گانوں سمیت سیکڑوں چیزیں لکھنے والوں ہی کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ ہمارا بولنا٫ سننا غرض ساری دنیا لکھاریوں کے ہی زیر اثر رہتی ہے۔ لکھاری صرف کہانیاں٫ ناول اور کالم لکھنے والے کو ہی نہیں کہتے بلکہ سائنس سے لے کر تصوف لکھنے تک سب کچھ لکھاریوں کی تحریریں ہی ہیں جو قاری کی ذہن پر اثر انداز ہوتی آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے کتاب کو انسان کا بہترین دوست کہا ہے۔
آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے موجودہ نسل کو کتاب سے دور کر دیا ہے۔ ان کے پاس کتاب ڈھونڈنے ٫خریدنے اور پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں۔ موبائل اور کمپیوٹر “کی پیڈ ” نے ان کا قلم٫ سیاہی اور قرطاس سے ناطہ توڑ دیا ہے۔ موبائل اور کمپیوٹر سکرین نے ان کے قلب و نظر کو بےبصیرت کر دیا ہے۔ مطالعہ تو شاید کسی نا کسی طریقے سے جاری ہے لیکن کتاب ہاتھ میں لیکر اس کے صفحے پلٹتے ہوئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا احساس اور قلم سے قرطاس پر سیاہی سے پھول کھلانے کا ہنر اب دم توڑ رہا ہے۔ کتابیں رو رہی ہیں اور قلم آہیں بھر رہا ہے۔ اب ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ کر نئی نسل کو مطالعہ کا خوگر بنانے کی کوشش کریں۔ ان کے ہاتھوں میں پھر سے قلم تھمائیں تاکہ وہ ڈیجیٹل جہالت زدہ ہو کر کتاب کی بد دعا کا شکار نہ ہو جائیں۔