اک صدائے کن فکان اس کے سوا کچھ بھی نہیں

11

دشتِ امکاں

بشیر احمد حبیب

(پہلا حصہ )

کل رات AFOSH club میں چند اہم دانشوروں کے ساتھ ڈنر کا اہتمام تھا ، سوال یہ اٹھا غالب کا نظریہ زمان و مکاں کیا ہے اور کائنات میں انسان کہاں کھڑا ہے ۔ غالب اکثر شعرا کی طری نظریہ وحدت الوجود کے قائل تھے ۔ مثلاً

دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

یا پھر

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

غالب کی کائنات ساکت و جامد بھی نہیں یہ مسلسل ارتقا کے عمل میں ہے ۔

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

اہم بات یہ ہے کہ نظریہ وحدت الوجود بعد میں ہونے والی سائنسی دریافتوں کے ساتھ بھی ہم آ ہنگ نظر آ تا ہے ۔ سائنس دراصل ان تمام کڑیوں کی تفصیل ہے جو نور ، نار ، یا Enargy کی مادے میں اور اس کے بعد مادے سے زندگی میں تبدیل ہونے کے عمل کو بیان کرتی ہے۔

فرسٹ لا آ ف تھرمو ڈائنامکس کے مطابق انرجی نہ تو پیدا کی جاسکتی ہے اور نہ تباہ کی جا سکتی ہے بلکہ یہ ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہوتی ہے ۔ اس کا مشاہدہ ہم روز کرتے ہیں اس کی آ سان مثال پٹرول سے گاڑی کا چلانا ہے یعنی کیمیکل انرجی کی میکینیکل انرجی میں تبدیلی ۔

تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون بتاتا ہے توانائی کی منتقلی ہمیشہ زیادہ ترتیب (order) سے کم ترتیب (disorder )کی طرف ہوتی ہے ۔
آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا آ پ چائے کا گرم کپ رکھ دیں تو کچھ دیر کے بعد وہ ٹھنڈا ہو جائیگا مگر چائے کا ایک ٹھنڈا کپ پڑا پڑا کبھی گرم نہیں ہو گا۔ یہ مشاہدہ اس قانون کی سادہ تشریح ہے۔

جب ہم زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں ایک نئی صورت نظر آ تی ہے ایک بچہ جب غذا کھاتا ہے تو اس کا جسم بڑھتا ہے اور یہاں ترتیب کا عمل بڑھتا ہے ، بچہ بڑھتے بڑھتے ایک حد کو چھو لیتا ہے اس کے بعد عمر کے ساتھ وہ جسم مضمحل ہوتا جاتا ہے اور ایک دن مر جانے کے بعد وہ واپس اپنے بنیادی اجزا میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔

یہی سارا عمل ان دو اشعار میں بھی بیان ہوا ہے ۔

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

اگر ہم عمومی لہجے میں بات کریں تو سائنس کہتی ہے اس کائنات کا آغاز بگ بینگ سے ہوا اور یہ کہکشائیں اور سورج ستارے وجود میں آئے اور سیارے اپنے اپنے سورج کے گرد اپنے مدار میں گھومنے لگے ۔ زمین بھی ایک سیارہ ہے جو اپنے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔ زمین کے ٹھنڈا ہونے کی دوران ( اسی طرح جیسے چائے کا کپ ٹھنڈا ہونے کی مثال دی گئی ) ایسے حالات پیدا ہوئے جس سے مختلف عناصر کے ملنے سے نیکلیو ٹائڈ (Nucleotide) بنے جو DNA کا اہم جز ہیں جہاں سے زندگی کا آغاز ممکن ہوا ۔وہیں سے Amino Acids جو پروٹینز کی بنیادی اکائی ہیں وہ وجود میں آ ئیں اور اس کے بعد نباتات ، حشرات، حیوانات ارتقا کی لڑی میں پروئے ہوئے سفر طہ کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئے ۔

مگر اس کہانی میں سیکنڈ لا آف تھرمو ڈائنامکس کی نفی نظر آ تی ہے ۔ کیونکہ مادے سے زندگی کا پیدا ہو جانا ایک disorder کا سفر نہیں بلکہ یہ disorder سے بہت ہے بڑے order کا سفر ہے جو بظاہر کسی بھی طرح سے سائنسی یا منطقی طور پر ماننا ممکن نہیں ۔

مادے سے زندگی کا پیدا ہونا perfect ترتیب کی طرف ایک ایسا قدم ہے جس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ مگر اس کی آسان مثال مرغی کا انڈہ ہے ۔ جب آ پ انڈہ توڑتے ہیں تو ایک حیرت انگیز منظر نظر آ تا ہے کہ دو طرح کے سیال مادے جس میں زیادہ سیال سفیدی کم سیال زردی کو اپنے حصار میں لیے ہوتی ہے ، یہ دو الگ سیال مادے آپس میں کبھی نہیں ملتے اور ایک حیرت انگیز توازن سے اپنے اپنے مقام پر کھڑے رہتے ہیں ۔ پھر مرغی انہی انڈوں کو 21 دن تک اپنے پروں سے ڈھانپ کر اسے ایک مناسب درجہ حرارت میں رکھتی ہے اور اکیسویں روز خول ٹوٹتا ہے اور اس میں سے چوزہ نکلتا ہے جس کی بناوٹ میں وہ تمام سیال مادے سو فی صد استمال ہوتے ہیں اور کوئی ویسٹ پروڈکٹ اس پروسس کی نہیں بنتی ۔ چوزہ خول سے نکلتے ہی چلتا پھرتا ہے اور دانا دنکا چگنا شروع کرتا ہے ۔
ایسی perfect پروسسنگ اور فائنل پروڈکٹ محض اتفاقیہ ممکن ہی نہیں۔

آپ کے لیپ ٹاپ پر word فائل کھلی ہو اور key بورڈ پر کوئی بچہ بیٹھ کر مختلف keys کو دباتا رہے ۔۔۔ چاہے یہ عمل وہ ایک سال ، دو سال یا پوری زندگی بھی کرے تو اس بات کا کتنا امکان موجود ہے کہ اتفاقاً دیوان غالب یا چارلز ڈکنز کا ناول تحریر ہو جائیگا ؟
ایسا کبھی ممکن نہیں ہو گا ، تو اگر یہ ممکن نہیں تو مٹی سے انسان کا بن جانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ مٹی اور انسان سے بلند کوئی تیسری ذات یہ کام سر انجام دے۔

اب ہم اس منزل فکر تک آ گئے ہیں کہ یہ اصول مان لیں کوئی ادنی چیز کسی اعلیٰ شہ میں تبدیل ہو ہی نہیں سکتی جب تک ان دونوں سے اعلی تیسری ہستی یہ کام سر انجام نہ دے ۔

جب ہم یہاں سے آ گے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں زندگی اپنے ارتقا کے اعلی ترین مقام تک پہنچ کر یعنی انسان کے درجہ پر فائز ہو جانے تک ، مادہ اب ایک ایسی شکل میں سامنے آ چکا ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے ۔ سوچنا، مادے کے ارتقا کا وہ اعلی ترین مقام ہے جس کو چھو لینا اتفاقاً ممکن ہی نہیں ۔

تغیر کی جس داستان کو ہم ڈسکس کر رہے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.