(قابل فکر لمحہ)

9

آپا منزہ جاوید اسلام آباد

ہماری معاشرے میں جب شادی کے دن مقرر کیے جاتے ہیں جب سے شادی کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں کھانا کون بنائے گا کس مارکی یا ہوٹل میں دعوت بارات ہے یا ولیمہ یا مہندی ہے تقریبات کے انتظامات کو بڑی توجہ سے دیکھا جاتا ھے جب کہ شادیوں کے لیے ہوٹلز اور مارکیاں درجنوں ہیں ۔۔پھر بھی سب فکر مند ہوتے ہیں بہت سے افراد ملکر یہ ذمہ داری نبھاتے ہیں ۔۔
نظام قدرت ہے جہاں خوشی ہے تو غم بھی ہوتا ہے زندگی موت الله کے اختیار میں ہے شادی کی تو تاریخ ہوتی ہے مگر موت کی کوئ تاریخ مقرر نہیں ہوتی اسے کب آنا ہے کسی کو معلوم نہیں
اس کے باوجود ہم نے کبھی ایسے موقعے کے لیے تیاری نہیں کی ہوتی جب کہ موت برحق ہے
گاوں میں تو پھر بھی آسانی ہوجاتی ہے اگر کوئ غریب ہے تو محلے والے ملکر کر اس کے کفن دفن کا انتظام کر لیتے ہیں لیکن جو لوگ دوسرے شہروں میں اپنی ملازمت کے سلسلے میں رہ رہے ہوتے ہیں.کرایے دار ہوتے ہیں سوچا ہے ان کا کیا ؟؟؟
یا ایسے گھر جن کا باپ فوت ہو جاتا ہے اور بچے چھوٹے ہیں یا بیٹا نہیں صرف بیٹیاں ہیں اور رشتے دار بھی پاس نہیں ہوتے ۔تو وہ کیا کریں
شہروں میں تو گھر بھی چھوٹے ہیں اور ایسے بنے ہوئے ہیں کہ گھر کے اندر میت کو نہلانے کا انتظام نہیں ہو سکتا ۔
تو ایسے میں گھر والوں کے لیے خاصی پرشانی بنتی ہے ایک تو گھر کا سربراہ فوت ہو جاتا ہے اس کا دکھ اور دوسرا یہ کہ اب میت کے نہلانے کفن دفن کا کیا کیا جائے ۔۔۔
۔گھر والے اس وقت دکھ میں ہوتے ہیں اور یہ سمجھ نہیں آتی کیا کریں کیسے انتظام کریں ۔ کفن خریدنے کون جائے چارپائی کہاں سے لائیں ۔
گھر والے اپنے عزیز کی جدائ کے ساتھ اس پرشانی میں بھی ہوتے ہیں کہ سب انتظام کیسے ہو گا
میرے خیال میں ایسا ہونا چاہیے کہ محلے کی ہر مسجد میں میت کے نہلانے اور کفن کا انتظام ہونا چاہیے۔۔۔
اسی طرح کوئی انجمن کوئ ادراہ ایسا ہونا چاہیے جہاں سے رابط کرتے ہی سارے مسئلے حل یو سکیں جس میں میت کو غسل دینا کفن کا انتظام میت کے لیے چارپائی۔چادر’پھول وغیرہ کا مکمل انتظام ہو ۔
اور اگر کسی کو مہمانوں کے لیے بستر چاہیں’ ختم شریف کے لیے سفید چادریں چاہیں’ کھانا چاہیے’ تو اس ادارے یا انجمن یا کسی سوسائٹی کے پاس اس کا مکمل حل لازمی ہونا چاہیے گھر والوں کی اجازت سے جو جیسے ان کی جیب اجازت دیتی ہے اس کے مطابق مکمل انتظام تین دن کر سکیں ۔
شہروں میں قبر کے لیے جگہ بہت مشکل مرحلہ ہے اس وقت محلے کی کمیٹی مسجد والوں کو آسان اور جلد از جلد یہ حل بھی نکالنا چاہیے ۔نہ کہ گھر والے خوار ہوتے رہیں ۔
قبرستان سب کے لیے ہونا چاہیے جو بھی اس کے ارد گرد فوت ہو جائے اسے نزدیک قبرستان میں جگہ ملنی چاہیے
قبرستانوں میں امیر غریب کی تقسیم اور دھڑوں کا کوئ عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔عجیب بات ہے۔ہر تقریب کے لیے ہوٹلز’ مالز’ مارکیاں مل جاتی ہیں لیکن جو سب سے ضروری ہے جو لازمی ہے اس کے لیے کوئ ادراہ ‘کوئ ہوٹل ‘کوئ انجمن کوئ مرکز بنانا ضروری ہے
جو ایک پہچان ہو کہ پس انہیں فون کرنا ہے اور سارا انتظام ہو جائے گا ۔ ایک اور بات جن کے گھر چھوٹے ہیں جہاں قران خوانی قل کے لیے جگہ نہیں ہوتی کیا ہی اچھا ہو ۔مساجد میں کوئ ایسی جگہ مقرر کر دی جائے یا کوئ ادارے والے مراکز والے ایسی جگہ کا انتظام کر دیں کہ جن کے گھر چھوٹے ہوں وہ قل کے ختم اور قرآن خوانی کے لیے اس جگہ کو استعمال کر سکیں ۔
ہاں قبرستان کے لیے بس’اور ایمبولینس بھی بہت ضروری ہیں
ان کے لیے آن لائن ایک ویب سائٹ بنائ جائے
اوپن نمبرز ہوں جب جس وقت کسی کو ضرورت پڑے وہ فون کرسکیں ۔۔۔ وقت کے ساتھ ہمارے رہن سہن بدل گے ہیں جیسے جیسے
بند گھروں میں رہنے لگے ہیں محلے داری بھی کم ہو گئ ہے ۔
پہلی جیسے میل ملاپ۔ بھی نہیں رہے ۔ویسے بھی لوگ دوسرے کے معاملے میں دخل نہیں دیتے کہ کہیں کچھ خرچہ نہ کرنا پڑ جائے
تو ایسی کمیٹیوں ‘ فلاحی اداروں ‘انجمن ‘ یہ کوئ پرائیویٹ ادارے ایسے لازمی ہونے چاہیں جو اس مشکل اور غم کی گھڑی میں غمزدہ خاندانوں کے کام آ سکیں۔۔۔
لیکِن سب سے یہ بھی گزارش ہے جو بھی ایسے ادارے بنائیں وہ اپنے ریٹ مناسب رکھیں یہ سوچ کر کہ یہ وقت سب پر آنا ہے کوئ موت سے بچ نہیں سکتا
تو جتنا ہو سکے نیکی کر لیں۔ کبھی کبھی بھلائ نیکی کمانے کے لیے دنیاوی طور پر گھٹا بھی کھا لینا چاہیے ۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.