فضائی آلودگی(سموگ ) اور لاہور

6

تحریر : فیصل زمان چشتی
لگتا ہے کہ لاہور میں سکھ کا سانس لینا صرف محاورے میں ہی باقی رہ گیا ہے کیونکہ فضائی آلودگی نے سانس لینا دوبھر کردیا ہے۔ فضائی آلودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جو براہ راست صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کے لئے تو یہ زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انڈسٹریلائزیش سے انسان نے ترقی تو کرلی مگر انسانی صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور آلودگی ان میں سرفہرست ہے کیونکہ یہ براہ راست انسانی نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے۔ یہ فیکٹریوں کی چمنیون سے اٹھتے دھواں کی شکل میں ہوسکتا ہے اور گاڑیوں کے سلنسر سے پیدا ہونے والا زہریلا دھواں بھی انسانی صحت کے لیے تباہ کن ہے اس کے ساتھ ساتھ اینٹوں کے بھٹوں سے نکنے والا دھواں اور فصلوں کے بھوسے کو آگ لگانے سے پیدا ہونے والا دھواں بھی نہایت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ شادی بیاہ پر ہونے والی آتش بازی کے باردو کا دھواں بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ سارے عوامل اکٹھے ہوکر انسانی بیماریوں میں افزائش اور بڑھوتری کا کام انجام دیتے ہیں۔ آلودگی کی بڑھتی ہوئی شرح مہلک اور جان لیوا بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ بچوں اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ جوان بھی سانس کی بیماریوں، آنکھوں کی جلن اور دیگر بیماریوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ شہر لاہور میں چنگ چی رکشوں، موٹر سائیکلوں اور پرانے رکشوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اور یہ سب مل کر شہر میں موت بانٹ رہے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں سے فضائی آلودگی کے حوالے سے لاہور کبھی پہلے اور کبھی دوسرے نمبر کی پوزیشن پر پراجمان رہتا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور کی فضا کتنی مکدر ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن حکومت اور شہر کی انتظامیہ لاہور میں فضائی آلودگی کو ختم کرنے میں یکسر ناکام رہی ہیں۔ ہر سال تھوڑی بھاگ دوڑ، میٹنگز، اشتہارات اور ٹریفک کے چالان کی مد میں کروڑوں روپے کی آمدنی کے علاوہ کچھ زیادہ حاصل وصول نہیں ہوتا۔ البتہ قدرت اپنی مخلوق پر مہربان ہو کر باران رحمت کردے تو وہ علیحدہ بات ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ لاہور کراچی کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور آبادی کے بےتحاشا دباؤ کے باعث مسلسل پھیل رہا ہے اور جتنا اس کا پھیلاؤ تیز ہے ویسے اس کی ترقی اور کنٹرول کرنے کے اقدامات نظر نہیں آتے جو سب کے لمحہء فکریہ ہے کیونکہ اگر ایسا مسلسل ہوتو پھر المیے جنم لیتے ہیں اور یہ صاحبان شعور اور صاحبان اقتدار کے لیے بہت سوچنے اور سمجھنے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ فوٹو شیشنز ، پھرتیوں اور پریس کانفرنسز سے کام نہیں ہوتے اس سے ٹک ٹاک کے ویوز میں اضافہ تو سکتا ہے لوگوں کو سہولیات کی فراہمی اور داد رسی ممکن نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں پاکستان اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے نام کا ادارہ بھی موجود ہے جو ہوا کی کوالٹی اور سموگ کی مقدار کو مونیٹر کرتا ہے۔
صرف باتوں کی نہیں یہاں عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ مسائل کا پیدا ہونا معمول کی بات ہے اور ان مسائل کا مستقل موجود رہنا حکومت ، انتظامیہ اور اداروں کی نااہلی، کاہلی ، سستی اور بد دیانتی قرار پاتی ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ فضائی آلودگی کےاسباب اور محرکات کون کونسے ہیں حکومت اور انتظامیہ کے پاس ہرقسم کی معلومات اور ہر قسم کا اختیار بھی ہوتا ہے اور وسائل بھی۔ وہ پابندیاں لگا سکتے اور عمل بھی کروا سکتے ہیں لیکن بات تو احساس اور خدمت خلق کے جذبے کی ہے۔ اگر اپوزیشن کا جلسہ سبوتاژ کیا سکتا ہے اور اس پر تمام توانائیاں صرف کی جا سکتی ہیں تو یہ بات تو انسانی جان کی ہے جو اس دنیا میں سب سے قیمتی چیز ہے۔
ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی بحران یا آفت اجائے تو” اوپر والے ” خوش ہوتے کہ مال بنانے اور دیہاڑیاں لگانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ ہمارا مجموعی معاشرتی اور قومی مزاج ہے جو باعث شرم ، باعث تکلیف اور قابل گرفت ہے۔
کیا حکومت، انتظامیہ اور ادارے مل کر شہر کے اندر فیکٹریاں اور کارخانے جو آلودگی کا باعث ہیں پر پابندی نہیں لگا سکتت اور انہیں شہر سے باہر منتقل نہیں کرسکتے ۔
کیا حکومت اور انتظامیہ مل کر دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی نہیں لگا سکتی اور بجلی پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتی تاکہ کم سے کم آلودگی پھیلے۔
کیا حکومت شہر کے قریب فصلوں کے بھوسے کو آگ لگانے پر سختی سے عملدرآمد نہیں کروا سکتی۔
یہ آلودگی پھیلا نے کے تین بڑے ذرائع ہیں لیکن میرے خیال کے مطابق ٹریفک کے دھویئں سے پھیلنے والی آلودگی سب بڑا ذریعہ ہے۔ پوری دنیا کے ممالک اپنے شہریوں کو ایسے مسائل سے بچانے کے لیے بڑے سخت اقدامات کرتے ہیں لیکن یہاں کے اقدامات آپ سب کے سامنے ہیں۔ سموگ کے ان دو تین مہینوں میں اخباری بیانات کی حد تک شوروغوغا رہتا ہے اور نتیجہ فضاؤں میں پھیلی آلودگی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ کبھی ہم سنتے ہیں کہ فضائی آلودگی میں پوری دنیا میں لاہور پہلے نمبر اور کبھی دوسرے نمبر پر موجود رہتا ہے۔
سموگ کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی مدد آپ کے تحت جہاں کہیں بھی مسائل نظر آئیں خود بھی روکیں اور حکومت کو بھی مطلع کریں۔ باشعور اقوام اپنی حالت آپ ہی بدلتی ہیں صرف حکومت مکمل نتائج حاصل نہیں کر سکتی۔
اب سائنس نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے۔ مصنوعی بارش سے اس مسئلے پر کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں اس کے تجربات بھی کیے گئے اور وہ کافی کامیاب بھی رہے لیکن ہم سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے عادی ہیں تمام اقدامات ہنگامی حالت میں اس وقت کئے جاتے جب سموگ بہت سا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.