آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے حکومت کی نئی چال
انسان۔۔۔احسان ناز
حکومت نے جو اسرائیل کی بربریت کے خلاف اور فلسطین کے شہریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے پورے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا یہ بڑا خوش آئینہ فیصلہ ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جاے وہ کم ہے اور تحریک انصاف نے اس کانفرنس میں حصہ نہ لے کر حکومت کو یہ موقع دیا کہ وہ یہ بجا طور پر کہہ سکے کہ پاکستان تحریک انصاف جو کہ پہلے ملک کی حکمران بھی رہ چکی ہے اور اس وقت بھی خیبر پختون خوا میں ان کی حکومت ہے وہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دیتی جتنی کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے بے تاب ہے اور خاص کر حکومت کی طرف سے دعوت ملنے کے باوجود وہ اس کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے اور ان کی قیادت چیئرمین بیرسٹر گوہر نے پیغام دینے والوں کو مطلع کر دیا تھا کہ ہم اس کانفرنس میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ ایک طرف ہماری پوری قیادت اور خواتین کے خلاف غزہ اور مقبوضہ کشمیر کے مظالم سے بڑھ کر ظلم ہورہا ہے اور حکومت یہ کانفرنس دراصل آئینی ترامیم اور تحریک انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم رکھنے اور پاکستان کے آئین میں وہ ترامیم لانے کے لیے ماحول بنا رہی ہے تاکہ مولانا فضل الرحمان جماعت اسلامی اور دیگر وہ جماعتیں جو پہلے 63 اے اور قانون میں اگاڑ پچھاڑ کرنے کے لیے جو تجاویز گھڑ رکھی ہیں انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھیں اس کانفرنس کے خاتمے کے بعد ان سے بات چیت ہوگی وہی خطرہ پاکستان تحریک انصاف کادرست ثابت ہواکہ مولانا فضل الرحمان جو کہ پہلے میاں محمد نواز شریف کو ملنا نہیں چاہتے تھے اور جس دن ان ترامیم کو پاس کرنے کے لیے پہلے اجلاس بلایا گیا تھا اور اس دوران جب میاں محمد نواز شریف کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے لیے وقت طے ہو گیا تو یکدم مولانا فضل الرحمان نے میاں محمد نواز شریف سے ملنے سے انکار کر دیا حالانکہ ملاقات کے لیے مولانا فضل الرحمان کے گھر تک سرکاری پروٹوکول اور پولیس کی طرف سے روٹ لگا دیا گیا تھا تاکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان 63 اے اور در دیگر ترامیم کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کر سکیں اور مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت کے پاس جوآاخری پتہ تھا اس کو کھیل سکیں۔ اس دن مولانا فضل الرحمان نے نہ جانے کیوں اپنا وزن بڑھانے کے لیے میاں محمد نواز شریف کو آنے سے منع کر دیا اس سے حکمرانوں کو بلایا گیا اجلاس ملتوی کرنا پڑا اور میاں محمد نواز شریف جو کہ صرف اور صرف ترامیم کے وقت ووٹ دینے کے لیے اسلام آباد آئے تھے جبکہ وہ لندن جانے کیلئےتیار تھے وہ واپس جاتی عمرہ سدھار گئے ،ان تمام معاملات کو پاکستان تحریک انصاف پہلے سے جانتی تھی کہ انڈر گراؤنڈ نواز شریف شہباز شریف آصف علی زرداری مل کر مولانا فضل الرحمان کو جل دے کر یا پھر ان کے مطالبات مان کر یہ ترامیم لا کر اپنے تمام معاملات ٹھیک کرلیں گے تو اب یہ جو شنگھائی کانفرنس کے نام پر پہلے تمام سیاسی پارٹیوں کا اجلاس منعقد کیا گیا اور اس میں جس طرح مولانا فضل الرحمان کو اہمیت دی گئی یہ اہمیت بتاتی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی مرضی کے مطابق انکے تحفظات دور کر دیے گئے ہیں اور وہ اب اس غیر پارلیمانی بے معنی ترمیم کا حصہ بنیں گے ۔یہ دراصل نئی آئینی ترامیم منظور کرانے کیلئے حکومت کی نئی چال تھی اور جو مسودہ آینئی ترمیم کے لیے حکمرانوں نے مولانا فضل الرحمان کو دیا تھا جو انہوں نے پہلے رد کر دیا تھا اور اب وہ اپنے ایک نئے مسودے کے ساتھ نئی بوتل اور پرانی شراب کے مصداق مسلم لیگ نون کو دونوں مسودے یا تجاویز کو یکجا کرکے دے رہے ہیں تو اس میں قاضی فائز عیسی کو ایکسٹینشن بھی ملے گی اور ان کی مدت ملازمت بڑھانے کیلئے عمر 65 سال کر دی جائے گی تاکہ تمام ججز اس ترمیم سے فائدہ اٹھا سکیں ممکن ہے کہ کئی ججزعمر بڑھانے کی تجاویز کو قبول نہ کریں کیونکہ اسی طرح اگر پاکستان کے تمام بڑے عہدوں پر ایکسٹینشن دی جاتی رہی تو جو نوجوان بچے ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر مختلف دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں اور ان کو نوکری نہیں ملتی تو پھر وہ کیا کریں گے اس موقع پر ایک قانوں پہلےہی جاری کر دیا ھے اور احتجاج کرنے والے طلبہ کی منجی تھوک دی ہے کہ کوئی طالب علم یہ حکم جاری کرنے کے بعد احتجاج نہ کر سکے اور یہ بھی نہ کہہ سکے یہ حکمران تو ہمیں بالکل نوکری دینا نہیں چاہتے یہ جب ریٹائرڈ لوگوں کو بار بار پہلے سے زیادہ تنخواہ اور مراعات دے کرکام چلا لیں گے تو یقین ہے نہ انصاف ملے گا نہ نوکری ملے گی اور پوری قوم شریفوں، زرداریوں اور دیگر وہ لوگ جو کہ اس وقت آئینی ترمیم میں ساتھ دیں گے ان کو گنہگار سمجھتے ہوئے ہمیشہ ان کے لیے جھولی اٹھا کر بد دعاؤں کے علاوہ اور کیا دے سکتے ہیں ابھی بھی وقت ہے کہ حکمران ان سارے معاملات کو جو کہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں اور جو مسودہ انہوں نے تیار کیا ہے وہ پاکستان کی پوری عوام پر مشتہر کریں تاکہ جس طرح عوام نے 8 فروری کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کر کے ساڑھے تین کروڑ سے زائد پاکستان تحریک انصاف کے ان نامعلوم امیدواروں کو ووٹ دیا ہے وہ دیکھ لیں کہ یہ حکمران اب کون سا ھتوڑا قوم پر چلانا چاہ رہے ہیں جس سے قوم کو برباد کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں