تصویر کاایک رخ یہ بھی ہے

17

احساس کے اندا
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
میرا آرٹیکل ” آخر ایسا کیوں ہے ” جو آج کےاس دور میں شادیوں کو مشکل بنانے کی چند ایک وجوہات کے بارے میں لکھا گیا تھا جس میں دوسری بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ جدید ریسرچ کی وجہ سے کزن میرج میں کمی واقع ہونا بھی لکھی تھی ۔یہ کالم شائع ہوا تو بہت سے قارئیں کی جانب سے مختلف آرا ء سامنے آئیں اور ساہیوال سے میری ایک برخورداری ماہ نور نے کزن میرج کے نقصانات بتاتے ہوۓ اپنے چند تجربات بھی شئیر کئے اور ساتھ ہی کزن میرج کے چند فائدے اورنقصان بھی لکھ بھیجے ۔وہ فرماتی ہیں کہ کزن میرج (رشتہ داروں میں شادی) کے حوالے سے سائنس اور اسلامی تعلیمات دونوں میں مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔ یہاں ان دونوں حوالوں سے فوائد اور نقصانات کو واضح کیا گیا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلام میں کزن میرج (چچازاد، ماموں زاد وغیرہ میں شادی) کی کوئی ممانعت نہیں ہے، اور یہ نکاح شرعی طور پر جائز ہے۔ قرآن میں اس قسم کی شادی کو منع نہیں کیا گیا ہے بلکہ مختلف مواقع پر خاندان کے اندر شادیوں کی مثالیں اور کا ذکر ملتا ہے۔کزن میرج کے چند فوائد یہ ہیں کہ خاندانی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور کزن میرج کی وجہ سے خاندانوں کے درمیان رشتہ داریوں میں مضبوطی اور قربت بڑھتی اور برقرار رہتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں خاندان کی وحدت اور یکجہتی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔کزن میرج سے رشتوں کی حفاظت ممکن ہوتی ہے اور قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے سے خاندانی وراثت، جائیداد، اور سماجی تعلقات کی حفاظت ہوتی ہے اور بہت سے مسائل کم ہو جاتے ہیں ۔۔ایک فائدہ خاندانی مطابقت کا بھی ہوتا ہے کزن میرج میں خاندان کی اقدار، رسم و رواج اور زبان ایک جیسی ہوتی ہیں، جو ازدواجی زندگی میں ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔ ایسے ہی ایک جیسے خاندانی پس منظر کی وجہ سے زوجین میں ثقافتی مطابقت زیادہ ہوتی ہے، جس سے ان کے بچوں کی پرورش اور تربیت میں آسانی ہوتی ہے۔ اور دوسری جانب نقصانات بھی اسی طرح ہوتے ہیں جن ایک نقصان ذمہداریوں کا بوجھ بڑھ جانا ہے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ازدواجی زندگی میں زیادہ ذمہ داریاں پیدا ہوسکتی ہیں، کیونکہ آپ کے خاندان کے دونوں فریق آپ کی زندگی میں مسلسل شامل رہتے ہیں۔ ذاتی مسائل میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی خاندانی تنازع یا اختلاف ہو، تو یہ ازدواجی تعلقات میں بھی مداخلت کر سکتا ہے۔ اگر نقصانات کی جانب نظر ڈالیں تو سائنسدانوں نے کزن میرج کے طبی اور جینیاتی پہلوؤں پر تحقیق کی ہے، جس سے مختلف نتائج سامنے آئے ہیں ۔ سائنسی تحقیق کے مطابق جو مغلوب ہوتے ہیں ، قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادی کی صورت میں بچوں میں جینیاتی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر ان جینز کے لئے ہوتا ہے recessive اگر والدین میں سے دونوں میں کوئی نقصان دہ مغلوب جین ہو تو بچے کو یہ وراثت میں ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس سے بچوں میں پیدائشی نقائص اور مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔: مختلف مطالعات نے دکھایا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کی شادی سے پیدا ہونے والے بچوں میں پیدائشی عوارض یا ذہنی پسماندگی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کزن میرج جائز اور کچھ سماجی فوائد کی حامل ہو سکتی ہے، جبکہ سائنسی نقطہ نظر سے اس میں جینیاتی نقصانات کا خطرہ موجود ہے۔ اس لئے اس معاملے میں اسلامی احکام کے ساتھ ساتھ طبی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ بچوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔ان کا سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کزن میرج کے نقصانات اسقدر ہیں تو پھر اسلام میں اس کی اجازت کیوں دی گئی ہے ؟
میں اپنے پہلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ بےشک اسلام دین فطرت ہے اورایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ آج تک سائنسی ترقی اپنی نت نئے تجربات اور تحقیق سے دنیا انقلاب لانے کے باوجود بےشمار قدرتی عوامل کے سامنے آج بھی بےبس دکھائی دیتی ہے ۔اسلام کسی ایسے عمل یا کام کی اجازت نہیں دیتا جو کسی بھی زاویے سے انسان یا بقا انسان کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہو یہی وجہ ہے کہ سائنس کی ریسرچ جوں جوں آگے بڑھتی ہے اسے باربار یون ٹرن لینا پڑتا ہے ۔بےشمار ایسی چیزیں ہیں جو آج کل تک ریسرچ کے مطابق نقصان دہ تھیں مگر آج وہ فائدہ مند قرار دی جارہی ہیں ۔ دین اسلام زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی فرماتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اۓ نبی ہم نے تمہارے لیے حلال کردیں تمہاری وہ بیویاں جن کے تم نے مہر ادا کئے ہیں اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیاں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں اور تمہاری وہ چچا زاد ،پھوپھی زاد ،ماموں زاد ،خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی (الاحزاب ۵۰)اس آیت میں ان تمام رشتوں کا بیان ہے جو ہمارے لیے حلال ہیں ۔اگر طبی نقطہ نظر سے ان میں کوئی خرابی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اس کی اجازت نہ یتے اور امت پر شراب اور سود کی طرح پابندی لگا دیتے ۔لیکن قرآن میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے ۔البتہ وہ رشتے جن میں اخلاقی ،روحانی ،طبی خطرہ تھا ان پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔جیسا کہ رسول اللہ ؐ نے پھوپھی اور بھتیجی ،نیز خالہ اور بھانجی کے علاوہ دو حقیقی بہنوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنے کو حرام قرار دیا ہے ۔لہذا کزن میرج کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے ان کی شرعا” کوئی حیثیت نہیں ہے ۔لیکن دوسری جانب اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بعض موررثی بیماریاں اور عادات والدین سے سے ہی اولاد میں منتقل ہوتی ہیں ۔ یاد رہے کہ سائنس کی ریسرچ ازل سے جاری ہے اور ابد تک ہوتی رہے گی اور ہر آنے والا دن اس میں اضافہ کرتا چلا جارہا ہے ۔جلد ریسرچ کی نئی نئی معلومات اور انکشافات کی باعث پہلی ریسرچ رد ہو جاتی ہے لیکن جو قرآن مجید میں لکھ دیا گیا ہے وہ قیامت تک کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے جس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی ۔اس میں جس چیز کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے وہ چاہے جتنی بھی اچھی یا فائدہ مند محسوس ہو وہ انسان اور اس کی بقاء کے لیے نقصان دہ ہی ہوتی ہے اور ہر چیز جو اس آخری کتاب الہی میں جائز اور حلال قرار دی گئی ہے وہ قیامت تک فائدہ مند ہی رہے گی ۔ہمارے فیصلے سائنس نے اور ریسرچ نے نہیں بلکہ ہمارے دین اور ہماری کتاب قرآن مجید نے ہی کرنے ہیں ۔اگر یہ مان بھی لیا جاۓ کہ کزن میرج بیماریوں کی وجہ ہے تو پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ دوسرے خاندانسے شادی کی صورت میں اس خاندان کی بیماریاں منتقل نہیں ہوں گی ؟
پاکستان میں بھی آج زیادہ تر رشتے خاندان اور کزن میرج کئے جاتے ہیں ۔گو وقت کے ساتھ ساتھ ان کا رواج کافی حد تک کم ہو گیا ہے لیکن آج بھی چند خاندان اسی کو فوقیت دیتے ہیں کہ بچوں کی شادی آپس میں ہی کی جاۓ دوسری جانب مغربی ممالک نے تو اس کی باضابطہ روک تھام کے لیے قوانین وضع کر لیے ہیں اور کزن میرج پر پابندی عائد یا تو کردی ہے یا پھر کرنے جارہے ہیں ۔لیکن پاکستان میں فی الحال ایسی کوئی تجویذزیرغور نہیں ہے ۔البتہ چند تنظیمیں اپنے طور پر میڈیا پر اس بارے میں آگاہی ضرور دیتی نظر آتی ہیں ۔کیونکہ ان کے پاس دلائل میں پیش کرنے کو کئی مثالیں موجود ہیں ۔جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔
جیسا کہ آپ ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش سے شادی کی۔ جو آپ ﷺ کی کزن لگتی تھیں۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی چچا زاد عاتکہ بنت زید سے شادی کی تھی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی بھی خاندان میں ہی ہوئی تھی۔یہ ایک طویل بحث ہے مختصرا” سائنس اور اسکی ریسرچ آج بھی ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہے اور وہ آۓ دن اپنی ریسرچ کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ابھی تک وہ بمشکل ڈی این اےکی دریافت تک پہنچ سکے ہیں ۔ ہر روز ۔نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں ان کی سوچ اور ذہن بدلتے رہتے ہیں جبکہ ہمارا دین اسلام قرآن پاک کی صورت میں اپنا دین مکمل کر چکا ہے ۔یاد رہے کہ اللہ کی حلال اور جائز قرار دی گئی کوئی چیز نقصان دہ نہیں ہو سکتی اور اگر کچھ نقصان نظر آتا بھی ہے تو اس کے فائدے اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ۔ کچھ چیزیں سائنس دانوں کی کسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتیں ۔سائنس شہادت کے بعد زندہ رہنے اور اپنےرب کی جانب سے رزق ملنے کو تسلیم نہیں کرتی جبکہ ہمارا ایمان کہ شہید نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اپنے رب سے رزق حاصل کرتے ہیں ہے کیونکہ یہ ہمارا رب کا حکم ہے تو یہ ہی حقیقت ہے ۔لیکن ابھی انسان کو اس بارے میں ادراک نہیں ہے جہاں سائنسی ترقی نے نت نئی ریسرچ اور تجربات سے دنیا کو کئی روشن پہلوں سے روشناس کرایا ہے اور تحقیق کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہےلیکن وہیں کچھ عوامل کے سامنے سائنس آج بھی بےبس نظر آتی ہے اور اپنی ریسرچ کو آگے بڑھانے پر متفق ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.