موت کی یاد۔۔۔ خوبصورت زندگی کی ضمانت

11

سجل ملک (اسلام آباد)
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ زمین پر انسان کا مقسوم کیا ہے، موت؟اور موت سے پہلے وہ زندگی جسے بطور نعمت عطا کیا گیا جسے خوبصورت رنگوں اور مسکراہٹوں سے مزین کیا گیا جسے جینے کے لیے ہزاروں لاکھوں آسائشیں عطا کی گئیں اور اس زندگی کو جینے اور زندہ رہنے کے لیے سب کو برابر حقوق کا درجہ دیا گیا لیکن ہم نے یعنی انسانوں نے کیا کیا کہ زندگی اور زندگی کے ہر ایک کو برابر حقوق دینے والے احکامات کو بھلا کر اس کی آسائشوں پر صرف اور صرف اپنا حق جمانے کے چکر میں زندگی کو اپنے لیے ایک رسوا کن مشقت بنا لیا اور زندگی کو صحت افزا ورزش کی بجائے ایسی آزمائش بنایا جس نے انسان کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا اور ایک ایسی ورزش جس سے جوڑ جوڑ دکھنے لگے اور موت سے پہلے انسان کئی موتیں مرنے لگا۔
مسابقت کے اس میدان میں انسانوں کا ہجوم بری طرح دوڑ رہا ہے اور اس دوڑ سے اس کے پیروں میں چھالے پڑ گئے ہیں اوسان خطا ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی دوڑ رہے ہیں اور سمجھ یہ نہیں آرہا کہ اس دور میں وہ کس سے آگے نکلنا چاہتے ہیں اور کتنا؟کیا انسان خود سے بھی آگے نکلنا چاہتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ برتری، مقابلے، شہرت اور پیسے کی اس دوڑ میں انسان اندھا ہو گیا ہے اگر اندھا نہ ہوتا تو دیکھ سکتا کہ اس ترقی کی دوڑ میں کس قدر پیچھے کی طرف دور جا پہنچا ہے۔ مسابقت حق نا شناسی،بے حیائی، ظلم، نا انصافی کے اس مقام پر جا کھڑا ہوا ہے کہ جہاں پر شنوائی کے کان بہرے اور بینائی کی آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں اور ہم میں سے ہر ایک یہ گمان کر رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا موجود نہیں لہذا جو کچھ بھی ہے اس کا ہے اور اسی کی مرضی سے ہوگا اور وہ اپنی جگہ پہ بالکل درست ہے۔
ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ دوسرا اس کے راستے سے ہٹ جائے وہ سب سے آگے نکل جائے میں نے زندگی کے 40 سالوں میں یہ مشاہدہ کیا کہ زندگی میں جو اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے وہ فائدے میں رہتا ہے اور جو حدود میں رہتا ہے وہ مارا جاتا ہے کبھی اپنے حالات کے ہاتھوں کبھی معاشرے کے ہاتھوں کبھی انسانوں کے ہاتھوں کبھی اخراجات کے ہاتھوں اور کبھی سرکار کے ہاتھوں۔
مرنے سے ایک بات دل و دماغ میں آئی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کسی جانور یا کسی اور مخلوق نے آج تک انسان کو اتنا نہیں مارا جتنا انسان نے انسان کو مارا ہے۔ اس اشرف المخلوقات نے انسان کو جنگوں میں مارا،رشتوں میں مارا، محبت میں مارا، دھوکے فریب سے مارا، اعتماد سے مارا،اعتبار میں لے کے مارا،انسان وہ واحد حیوان ہے جو اپنی ہی نسل کا شکار کرنا پسند کرتا ہے اس انسان کے اتنے بہروپ اتنے رنگ ہیں کہ اسے خود ہی نہیں پتہ۔
کوئی دوست کے روپ میں شکار کرتا ہے تو کوئی دشمن کے روپ میں کوئی مسافر کے روپ میں لٹیرا ہے تو کوئی برتری کے احساس کا غلام،کسی کو ایمانداری کا غرور ہے تو کسی کو شہرت و دولت کا نشہ اور اس سب نے انسان کو سب کچھ بن کر رہنا سکھایا اور انسان نے سیکھا اگر نہیں سیکھا تو انسان بن کر رہنا اور جینا نہیں سیکھا۔
دراصل ہم جو زندگی گزار رہے ہیں اسی کو ہی عین فطرت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ یہ سراسر خلاف فطرت ہے اور اسی امر نے زندگی کی فطرت کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے صحیح کو غلط قرار دیا گیا ہے اور جو غلط ہے وہ صحیح قرار پا رہا ہے
اب اس صورتحال نے ہمارے دماغ ماوف کر دیے ہیں۔سوچوں کو مسخ دیا گیا ہے۔کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ وہ جس ترقی اور روشنی کی تلاش میں اپنے آپ کو بھی پیچھے چھوڑ کر دوڑا تھا تو وہ صرف ایک کال کوٹھری ہے جس میں ہر طرف اندھیرا ہے اور کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا اور کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کس کا ہاتھ کس کے گریبان پر ہے اور اس صورتحال نے دماغ کو ایک جھنجلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے اور ایک ایسی جھنجلاہٹ جس میں سمجھ ہی نہیں آرہا کہ انسان اتنا اونچا کیا نیچے چھلانگ لگانے کے لیے اٹھا تھا۔
میرے خیال میں انسان تاریخ کی اس کال کوٹھری میں محصور ہو گیا ہے جہاں پر ہر طرف کالک اڑ رہی ہے اور وہ وقت قریب لگتا ہے جب انسان اپنے ہاتھوں سے ہی اپنا منہ چھپاتا پھرے گا تاکہ چیرے سیاہ نہ ہو جائیں لیکن یہ سیاہی خود انسان نے اپنی قسمت میں لکھی ہے۔
لہذا مجھے تو اس صورتحال سے صرف یہی لگ رہی ہے کہ چہرے تو سیاہ ہو چکا ہیں دل کو سیاہ ہونے سے بچا لیں تو شاید زندگی کو بچایا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
اب جو بات ہم لوگوں کی سوچنے کی ہے وہ صرف اتنی سی ہے کہ جس شہرت دولت بلندی ترقی اور خوبصورتی کے لیے انسان نیخود کو انسانیت اور اشرف المخلوقات کے درجے سے گرایا،غرور وگھمنڈ کو اپنی پہچان بنایا اور خوبصورتی کے لیے اپنی ہی صورتوں کو مسخ کیا اور اس دوڑ میں بہت سے لوگوں کو اپنے رویوں سے اپنی باتوں سے اس لیے کچلا اور روندا کہ ہم بہترین رہیں تو ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس دنیا میں ہر چیز عارضی ہے، سب مائع ہے اور سچ صرف فنا ہے،انسان کو پہچان لینا چاہیے کہ موت اٹل حقیقت ہے اور یہ پہچان ہی عرفان ذات اور ایمان ہے اور یہ عرفان ذات ہی انسان کو دوبارہ انسان کے درجے پر فائز کر سکتا ہے تاکہ اللہ کی دی ہی خوبصورت زندگی کو پوری خوبصورتی و توانائی کے ساتھ گزار سکیں کیونکہ ہم حسین ترین امیر ترین اور زندگی میں ہر حوالے سے بہترین ہو کر بھی مر جائیں گے۔ کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے
تم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.