مٹی اور خوشبو (پہلا حصہ )
دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب
مولانا جلال الدین رومی نے کہا تھا ” میں مٹی تھا اور اگر مجھ سے کوئی خوشبو آ تی ہے تو وہ کسی اور کی ہے”
اگر آ پ بیج سے پھول اور پھول سے خوشبو تک کا سفر دیکھیں تو معلوم ہو گا ، گرچہ لالہ و گل کے بننے کے عمل میں خام مال مٹی ہے لیکن جو Product بنتی ہے وہ مٹی سے کہیں افضل ہے ، نہ صرف افضل مگر مختلف بھی ہے ۔۔ کہیں سرخ گلاب ہیں ، تو کہیں نارنجی پھول ، کہیں دل کو محسور کر دینے والی خوشبو اور کہیں دھیمی دھیمی سی ماحول معطر کر دینے والی مہک۔
بیج سے پھول بننے تک کے سفر میں اگر مٹی پانی ہوا اور روشنی میں سے ایک جز بھی کم ہو جائے تو یہ سفر ممکن نہیں رہتا اور بیچ ہی میں رک جاتا ہے ۔
ایک چھوٹے سے بیج کے اندر وہ سارا پلان موجود ہوتا ہے جس سے پودا پھل پھول کے تناور درخت بنتا ہے اور اس کی شاخوں پر بہت سارے پھل پھول نکلتے ہیں اور وہ نئے بیج پیدا کرتا ہے ، وہی دائرے کا سفر ، یعنی وہیں واپس لوٹتا ہے جہاں سے آ غازِ سفر ہوا تھا۔
بیج کا یہ سفر دو طرفہ ہوتا ہے ایک زمین کے اندر اور دوسرا آسمان کی جانب ۔ وہ اپنی جڑوں سے پانی کے ساتھ مٹی کے سلیکٹو اجزا کشید کرتا ہے اور پروں میں ہونے والے فوٹو سنتھسس کے عمل سے پیدا ہونے والے پھل اور پھولوں سے اپنے پوٹینشیل کی تکمیل کرتا ہے۔ یہ پھل اور پھول ایک دوسرے سے ذائقے اور خوشبو میں مختلف ہوتے ہیں اور اس پودے کی پہچان بنتے ہیں ۔
یہ سفر یہاں ختم نہیں ہوتا ۔ پھولوں کی خوشبو شہد کی مکھیوں کو بلاتی ہے اور وہ پھولوں کا رس کشید کرنے کے لیے پھولوں پر اترتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اس پودے کے پولن گرینز کو اسی پودے یا مختلف پودوں کے نر اور مادہ پولنز گرینز کو آ پس میں ملانے یا پولینیشن کا باعث بنتی ہیں جسے self پولینیشن یا cross پولینیشن کہا جاتا ہے ۔
اس پوری کہانی کا دلچسپ پہلو یہ ہے،
۔ کہ دہریے اس پوری واردات کو کائنات میں از خود ہونے والے اتفاقات اور حادثات کا سبب قرار دیتے ،
۔سائنٹسٹ بیج سے بیج تک کے سفر کی ہر کڑی جوڑتے ہیں مگر اس sequence میں ہونے والے پروسسز کو عرب ہا سالوں کی ایولیوشن اور میوٹیشن کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں بگ بینگ کے نتیجہ میں جو کائنات وجود میں آئی اور جس طرح ہمارا سولر سسٹم بنا اس عمل کے دوران نیوکلیو ٹائڈ بھی بنے اور DNA بھی اور وہاں سے زندکی کا عمل اتفاقاً شروع ہو گیا۔
یہ کہانی اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتی ہے جب ہماری مزہبی کمیونٹی یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتی ہے یہ سب منجانب اللہ ہے ۔ اور اس نے اس کائنات کی تخلیق میں اور اس کی بقا کے لیے جو اسرار رموز رکھے ہیں اس کو کھولنے یا جاننے کی سعی یا جد و جہد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے بس اس بات پر ایمان لانا ہی کافی ہے۔
اور کبھی جب یہ تینوں مکاتیبِ فکر کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ڈسکشنز میں آجائیں تو وہاں نہ ختم ہونے والا دلائل و براہین کا ایک سلسلہ شروع ہو جا تا ہے اور جس کا اختتام عمومآ یوں ہوتا ہے ۔۔
مزہبی نکتہء نظر ۔۔۔ کوئی کم تر چیز اپنے سے افضل چیز نہیں بنا سکتی ۔۔ یعنی بے جان مٹی سے انسان کا بن جانا ممکن نہیں اس لیے اس کائنات کو بنانے والی ذات عظیم تر ہے اور وہ اللہ ہے ۔
دہریہ سکول آ ف تھاٹس۔۔۔ چلیئے میں مانتا ہوں اس کائنات کا کوئی خالق و مالک ہے ۔۔ تو پھر اس خالق و مالک کو کس نے بنایا ۔
سائنٹیفک نگتہء نظر ۔۔۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں ہر effect کا ہمیشہ کوئی Cause ہوتا ہے جیسے اس کائنات کا اللہ ، مگر آ پ کہتے ہیں اس کائنات کو اللہ نے بنایا اور اللہ کو بنانے والا کوئی نہیں ، تو ہم یہی Logic جو اللہ کے لیے مانتے ہیں کائنات کے معرضِ وجود میں آ نے کے لیے کیوں نہیں مان سکتے کہ کائنات کو بنانے والا کوئی نہیں۔
ان تینوں آرگومنٹس کو گہرائی میں دیکھیں تو دہریت اور سائنس دونوں یہ مانتے ہیں خاک سے پھول اور خوشبو تک کا سفر کسی افضل ذات کی involvement کے بغیر ممکن نہیں ۔ مگر جب وہ یہ منطق آ گے بڑھاتے ہیں کہ خدا کا خالق کون ہے تو مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اس کا مزید analysis کرنا ہو گا ۔
منطق سے مدد لیں تو وہ کہتی ہے کوئی بھی تخلیق اپنے خالق کی ذات و صفات کو نہ تو جان سکتی ہے نہ احاطہ کر سکتی ہے۔ مثلآ ایک مصور (پیکاسو) کی پینٹنگ یہ کیسے سمجھ سکتی ہے کہ مصور نے رنگوں کے استمال سے ، برش کی مدد سے اور اپنے تخلیقی ذہن کی کاوش سے کیسے اسے ایک شاہکار بنا دیا تھا ،
یا یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی شاعر کی غزل یا کسی انجینئر کی بنائی ہوئی کار ایک دن اسی کے دروازے پہ آ کے دستک دے کر یہ سوال اٹھائے کہ مجھے کیوں لکھا یا بنایا گیا ۔
ہمیں اس کا جواب الہامی کتابوں سے دیکھنا ہو گا کیونکہ مزہب ہی وہ علم ہے جو ان موضوعات پر اپنی عمارت کھڑی کیے ہوئے ہے ۔
الہامی کتابیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کائنات اللہ نے پیدا کی ۔ قرآن میں کائنات اور انسان کی تخلیق کے حوالے سے مختلف کڑیاں جوڑی گئیں یا sequences بیان کیے گئے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہو گا سائنس میں بعد میں ہونے والی دریافتیں کیا قرآن کی ان details کے ساتھ ہم آ ہنگ ہیں یا تصادم میں ہیں۔
دوسرا یہ کہ اگر الہامی کتابوں میں کوئی آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کی گئی ہے تو کیا وہ باتیں غلط نکلیں ، صحیح ثابت ہو گئیں یا کچھ بھی نہیں ہوا۔
یہ سچ ہے قرآن