زندگی کو خوبصورت بنانے کا طریقہ

16

خدمات ۔۔۔۔۔چودھری مخدوم حسین

زندگی بہت مختصر ہے اور دوبارہ نہیں ملتی۔انتہائی برق رفتاری سے وقت گزرتے وقت کے ساتھ چلنا محال ہے ،مگر کچھ ہستیاں ایسی بھی ہیں جو وقت کی رفتار سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ۔وقت کے ساتھ چلنے والے ہی فی زمانہ کامیاب کہلاتے ہیں ۔ دشت نوردی کرنے والوں کو بھی کہیں سکون میسر نہیں ،انسان بنیادی طور پر متحرک رہنے کے لئے وجوہات تلاش کرتا رہتا ہے انسان کی تحقیق اسے سرگرم رکھتی ہے اور اکثر کائنات کے رموز کو جاننے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں،مجھ سمیت کئی دیہات کی زندگی سے آشنا لوگ حقیقت کو روایتی انداز میں دیکھتے ہیں جبکہ شہروں میں انسان مسلسل جستجو کررہا ہے اور اسکے سامنے بہت کچھ کرنے کے کیلئے بڑے معرکے درپیش رہتے ہیں ،جدید دنیا کی طرف دیکھیں تو انسان اب موت کو مسخر کرنے تک کی جستجو کررہا ہے تاہم ہم نے تو موت کو رب کی رضا قرار دیکر ساری بحث ہی سمیٹ دی ہے ۔اس کائنات میں سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اربوں سال پرانی اس دنیا میں موت کو کسی نے بھی شکست نہیں دی ،سائنس دان بھی یہی کہتے ہیں ،اب ہم جیسے واجبی سی تعلیم رکھنے والے دیہاتیوں کو کچھ بھی علم نہیں اور یہی ہمارے پاس سب سے بڑا یقین ہے کہ ہم نے اپنے مرشدوں کی پیروی کو ہی ایمان کا حصہ بنایا ہوا ہے ۔ہمارے لئے سارے انسان ہی قابل احترام ہیں اور ہمیں کائنات کے اسرار و رموز کا کچھ پتہ نہیں اور یہی ہمارا یقین ہے کہ ہم سے بہتر کائنات کو سمجھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں مگر انہیں تاحال کہیں بھی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ۔اس لئے حقیقت یہی ہے کہ کائنات پر تحقیق کرنے والوں کو چاند اور ستاروں کا سفر کرنے کے سالہا سال بعد بھی اس کائنات کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا ابھی تک چاند کی زمین اور مٹی کے بارے میں ناسا کے سائنسدانوں کی جانب سے تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور ہر روز آسمان کی وسعتوں کے بارے میں کوئی نئی تحقیق سامنے آجاتی ہے ۔کائنات کے بارے میں اصل سچائی تو اسکے تخلیق کرنے والے کو ہی معلوم ہوگی اور اصل تک رسائی سردست ممکن نظر نہیں آتی ۔اسکے باوجود کوشش جاری وساری ہے ۔میرے جیسے عام سے لوگ جب کسی بڑے دانشور کی محفل میں بیٹھ کر دنیا جہان کی تخلیق کے قصے سنتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں ۔بہرحال کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہوئے ذہنوں پر بوجھ بڑھنے لگتا ہے تو پھر ہم سوچتے ہیں کہ یہ واقعی سب کچھ عارضی ہے ۔اور انسان کو ایک دوسرے کی خدمت پر مامور کیا گیا ،نیکی بھی اسی کا نام ہے اور خدمت خلق بھی یہی ہے لیکن جب ہم اپنے اردگرد پریشان لوگوں کو زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کرتے دیکھتے ہیں تو یہ خیال بھی آتا ہے کہ یہاں پوری زندگی دوڑنے والوں کے ہاتھ کئی بار کچھ بھی نہیں آتا اور وہ دوڑتے ہی رہتے ہیں ،بقول شاعر

ایسے لگتا ہے مجھے اس زندگی کی دوڑ میں
ہاتھ کچھ آئے نہ آئے دوڑتے رہ جائیں گے

انسان کو احساس ہونا چاہئے کہ اسے بہت مختصر وقت کے لئے اس کائنات میں کوئی کردار نبھانے کیلئے بھیجا گیا ہے ۔زندگی بہرحال دم توڑ جائے گی اور سفر تمام ہوکر رہے گا،کیونکہ میرے بزرگ پھر انکےبزرگ اور ان بزرگوں کے بزرگ اپنے اپنے وقت میں اپنے حصے کی خدمات انجام دے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور سب کی موت پر ہم نے صبر ہی اختیار کیا ،تسلی دینے کی خاطر ہم نے تعزیتی جملوں میں اس انتقال کو رب کی رضا قرار دیدیا ،ان حالات میں جب ہمیں یقین ہے کہ ہم سب نے اس دنیا میں مستقل طور پر نہیں رہنا تو پھر بھی ہم ایک دوسرے کے مال ودولت پر قبضے کی خاطر قتل وغارت ،چوریاں اور ڈاکے کیوں مارتے ہیں ان سے بھی بڑے ظالم تو وہ ہیں جنہیں خدا نے بہت کچھ دے رکھا ہے اور وہ پھر بھی مسکینوں ،لاچاروں اور کمزوروں سے ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھننے سے بھی باز نہیں آتے اور وہ جو بہت زیادہ مال ودولت سمیٹ کر بیٹھے ہیں کہ شائد وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے سب کچھ یہی چھوڑ کر مرجائیں گے ،یہ لوگ اگر اپنی ہر طرح کی ضروریات سے زیادہ وسائل بے وسیلہ ضرورت مندوں کو بانٹ دیتے تو کائنات خوبصورت ہو جاتی ۔آج رابطے کے اس جدید جہان میں دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے تو اس کو دوسرے کی تکلیف کا بھی علم ہے ضرورت سے زیادہ وسائل رکھنے والے بھی سامنے ہیں ،اس کے باوجود یہ بغیر مطلب کے کسی کو کچھ بھی دینے پر راضی نہیں ،یہ شائد ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمیشہ تاریخ میں بھی وہی زندہ رہتا ہے جو دوسروں کی خدمت کو شعار بناتا ہے ،دکھی انسانیت کی خدمت ہی اس مختصر زندگی کو خوبصورت بنانے کا بہترین طریقہ ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.