زعیم رشید کی ہینڈ میڈ نظمیں ( دوسرا حصہ)
زعیم رشید کی ہینڈ میڈ نظمیں ( دوسرا حصہ)
دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب
گور میں ہوتے ہوئے خلد کے در کھولنا دستِ صبا کی بہت سی نظموں کا مرکزی نکتہ ہے ، مثلاً جب فیض کہتے ہیں،
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
یا پھر جب وہ یہ کہتے ہیں ۔۔۔
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
تو فیض اس مقام کو چھو لیتے ہیں جس کو فنا نہیں
ہاں اس شدت سے نہیں مگر زعیم بھی اپنی نظموں میں خلد کے در وا کرتے ہے ۔۔۔
“وہی ہوا ناں،”
زعیم کی اس نظم میں بھی کم وبیش یہی کیفیت ہے ۔۔
میں اپنی چائے میں بسکٹ ڈبوتا تو
عجب مشکل میں پڑ جاتا
وہ کہتی تھی
مری سوسائٹی میں Move کرنا تم کو آ تا ہے
یہ تم دیہاتیوں کو، کیا پتا اس کا
کچھ ایٹی کیٹس ہوتے پیں۔۔۔
میں کہتا تھا
تمہارے ساتھ میرا وقت گزرے گا
تو سب کچھ سیکھ جاؤں گا
گزارا کر لیا جائے
اسے بس ایک ہی دھن تھی
کنارا کر لیا جائے
کنارا کر لیا اس نے
سنا ہے
روز چائے میں
وہ اب بسکٹ ڈبوتی ہے
اور اس پر خوب روتی ہے
زعیم کے اس confidence پر داد تو بنتی ہے۔
اب میں زعیم کی نظم “جاگتے خواب” تک آ گیا ہوں ۔۔۔ مگر مجھے کیوں لگ رہا ہے, یہ میں نے پہلے سے پڑھ رکھی ہے ۔۔
تو کیا زعیم رشید بھی ۔۔۔ نہیں نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
میں ذہن پہ زور دیتا ہوں ۔
پولی تھین میں نان چپاتی
ٹین کے ڈبے میں سالن
حفظانِ صحت کا لیبل
اور پانی کی بوتل ۔
یہی لائنیں تھیں ۔۔ کہاں پڑھی تھیں ۔۔۔ میں ورق الٹتا ہوں ۔۔ ارے ارے ۔۔۔
“جاگتے خواب” یہی نظم اسی کتاب کے صفحہ 115 پر بھی ہے اور صفحہ 133 پر بھی ۔۔۔ اور یہ پیسٹنگ کی غلطی بھی نہیں ۔ دوبار کتابت ہوئی ہے۔
او خدایا۔۔۔
گویا کتاب کا مسودہ زعیم نے بھی نہیں پڑھا ۔۔۔ نہ پبلشر نے اور نہ ہی پروف ریڈر نے ۔۔۔
خیر پبلشر تو زعیم خود ہی ہے ۔
مگر یہ تو ہو سکتا تھا وہ نوید صادق سے فلیپ لکھواتے اور کم از کم اس تاثر سے بچ جاتے کہ مسودے کو مصنف نے بھی نہیں پڑھا۔
یہ تو وہی میبل اور میں والا قصہ نکل آیا ، دل سے پطرس بخآری کے لیے دعا نکلتی ہے، اور دل پہ جو ملامت کا بوجھ تھا قدرے کم ہو جاتا ہے۔
“یہ چادر کیوں نہیں ہٹتی”
زعیم نے اس نظم بڑی ماں کے جو خال و خد اجاگر کیے ہیں ۔۔ اس میں ، میں اپنی ماں کا چہرہ بھی دیکھ سکتا ہوں اور یہیں یہ نظم ایک زندہ نظم بن جاتی ہے۔۔۔
بالکل اسی طرح ۔۔ اپنی نظم
” کہانی سچ اگلتی ہے” میں زعیم نے اپنے بابا کا جو امیج بنایا ہے اس میں میرے بابا کی بھی جھلک ہے ، یا یوں کہہ لیں ہر کسی کے بابا کی جھلک ہے ۔ یہ وہی مقام ہے کہ جب ہم سب میں سے نکل کر ہم۔ہو جاتے ہیں ۔۔
،”مل مالک اور منشی جی” ایک ایسی نظم ہے جو ساحر اور حبیب جالب کی یاد دلاتی ہے دوسری طرف بلوغت کی ایک نظم میں میرا جی کا رنگ جھلکتا ہے ۔
مگر وقت کی قلت آ ڑے آ رہی ہے ۔ میں اختتام کی طرف بڑھتا ہوں اور شکیب جلالی کا وہ شعر پیش کرتا ہوں جس میں تتلی استعارہ ہے۔
جب آپ شعر سنیں تو تتلی کو بڑی اماں، بابا ، ذینم یا زعیم کی کسی بھی نظم کے مرکزی نکتے سے بدل دیں تو بات کھل کر سامنے آ جائیگی۔
شکیب کہتے ہیں۔۔
میری گرفت میں آ کر نکل گئی تتلی
پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مٹھی میں
یہ کتاب زعیم کی کھلی مٹھی ہے اور اس کی تمام نظمیں پروں کے رنگ ۔