پنجاب کی یونیورسٹیاں

33

تحریر: عبدالقادر مشتاق

پنجاب میں تعلیمی ادارے اجکل موضوع سخن بنے ہوے ہیں۔ کہیں سکولوں کی باتیں ہو رہی ہیں، کہیں کالجوں میں اساتذہ کی کمی اور باقاعدہ پرنسپل حضرات کی تعیناتی مسلہ بنا ہوا ہے، یونیورسٹیوں میں باقاعدہ وایس چانسلر کی تعیناتی حکومت وقت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتوں کو مسائل اور چیلنجرز کا سامنا ہوتا ہے لیکن یہ قیادت کی صلاحیتوں اور اچھی ٹیم کے انتخاب پر بہت سارے مسائل خود ہی حل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے شعبہ کے مختص کئے گئے بجٹ پر کافی تنقید آتی ہے۔ اس وجہ سے تعلیمی اداروں کو معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ اس مسلے سے نکلنے کے لیے بچوں پر فیسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، دھڑا دھڑ کالجوں کا الحاق کیا جاتا ہے تاکہ معاشی مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بہت سارے تعلیمی اداروں نے کاروبار شروع کر رکھے ہیں ۔ مارکیاں، مارکیٹوں اور پٹرول پمپوں پر روپے پیسے لگا رکھے ہیں تاکہ ادارے کو مالی بحران سے بچایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں ہونے والی ریسرچ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اول تو تعلیمی اداروں کی ریسرچ مارکیٹ میں اس لیے نہیں آ پاتی کیونکہ اس ریسرچ کو شائع کرنے کے لیے اداروں کے پاس بجٹ نہیں ہے۔ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ریسرچ الماریوں کی زینت بنتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ریسرچ صرف اساتذہ کرام کی ترقیوں کے لیے کی جاتی ہے نہ کہ معاشرے کی بہتری کے لیے۔ اس وجہ سے جب بھی قوم پر کوئی آفت آتی ہے تو تعلیمی ادارے اس میں کوئی اپنی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس پر وایس چانسلر حضرات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں اور اساتذہ کرام کو آپس میں لڑا کر عدالتوں کے چکروں میں ڈال دیتے ہیں پھر اساتذہ کی ترجیح ریسرچ نہیں ہوتی بلکہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ہوتی ہیں۔ اسی کھینچا تانی میں عمر بیت جاتی ہے۔ لیکن سبق ہم پھر نہیں سیکھتے، اس لیے کہتے ہیں کہ عقل کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا۔ جہاں تک طلبہ کا تعلق ہے ان میں مایوسی اور ناامیدی کا پھیلاؤ ایک بہت بڑا المیہ ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے مخالف ممالک نے پہلے پاکستان کو ثقافتی طور پر فتح کیا اور اب اس کے نوجوانوں کو اس سے متنفر کر رہے ہیں ۔ نوجوانوں کو منزل دینے کی ضرورت ہے اور محنت کا درس لازم ہو چکا ہے۔ تعلیمی اداروں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ طلبہ میں شدت پسندی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ مختلف صوبوں کے لوگوں کو پنجاب میں داخلے دیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود نفرت اپنی جگہ موجود ہے بلکہ اس میں شدت آ رہی ہے۔ ویسے سٹوڈنٹس یونین پر پابندی ہے لیکن ہمارے دوسرے صوبوں سے آئے طلبہ اپنی یونین بنا چکے ہیں، ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان حالات میں تعلیمی اداروں کو قومی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا چاہے اور قومی ہم آہنگی کی فضا کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اداروں میں امن ہو گا تو ہی کام ہو سکے گا ورنہ جنگ کی حالت میں تباہی اور بربادی ادارے کا مقدر بن جاتی ہے۔ معیاری تعلیم بھی ایک بہت بڑا مسلہ ہے۔ اس مسلے کے حل کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ بھی اپنے آپ کو جدید علوم سے آراستہ رکھیں۔ کلاس روم کے ماحول کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اساتذہ اور طلبہ شرح کو برقرار رکھا جائے، طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے سے مزید اساتذہ بھرتی کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن اداروں کے مالی مسائل کی وجہ سے وہ نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے معیار تعلیم متاثر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے اساتذہ ترقیاں نہ ملنے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی ادارے کے ساتھ کمٹمنٹ کم ہوتی جا رہی ہوتی ہے۔ جو تعلیم کے معیار کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کی ترقیوں کے لیے ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ سفارشیں تلاش کرنے کی بجائے اپنے کام پر توجہ مرکوز کر سکیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.