78واں یوم ازادی

8

منشا قاضی حسب منشا

پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کالم لکھنے میں دیر ہو گئی اور اس دیر کے پیچھے میری علالت تھی ۔ علالت کے باوجود میں 78 ویں یوم ازادی کی تقریب میں موجود تھا ۔ مکمل روداد لکھی مگر موبائل میں فنی خرابی کی وجہ سے وہ صفحہ ء سکرین سے اڑ گئی اور اخبارات کو بروقت نہ پہنچا سکا ۔ ایک لکھاری کے لیے سب سے مشکل کام یہ ہے کہ وہ دوبارہ لکھنے میں دقت محسوس کرتا ہے اور میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ میری قیمتی نگارشات بھی موبائل کے بطن سے ساقط ہو گئی ۔ گویا ۔

وہ جو میں نے تراشے تھے تیرے تصور میں کبھی

وہ بھی لے گئے میرے گھر سے پجاری پتھر

حافظے کی مدد اور شوق و اشتیاق سے مکرر لکھ رہا ہوں ۔ غالب نے تو کہا تھا کہ لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں ۔
سی ٹی این اور روٹری کلب شالیمار کے اشتراک سے اج پاکستان کا 78واں یوم ازادی بڑی شان و شوکت سے منایا گیا سی ٹی این فورم کے چیئرمین جناب مسعود علی خان جن کی بے لوث خدمات کا ایک زمانہ گواہ ہے انہوں نے ہمیشہ ملی اور انسانی بھلائی کے کاموں میں سبقت لی ہے ۔ مسعود علی خان کی زندگی کا وہ دن رائیگاں جاتا ہے جس دن ڈوبتے ہوئے سورج نے انہیں کوئی خیر و بھلائی کا کام کرتے ہوئے نہ دیکھا ہو اور یہ حقیقت ہے کہ مسعود علی خان نے ایک ایسے محقق کو دریافت کیا ہے جو قائد پر مستند اور معتبر حوالہ ہیں ۔ میری مراد ائر کموڈور خالد چشتی سے ہے۔ جشن یوم ازادی کی یہ پرشکوہ تقریب تین موضوعات میں بدل گئیں ائر کموڈور خالد چشتی کے حصے میں تحقیق و جستجو ۔ سید تنویر عباس تابش خطابت کے شہسوار ٹھہرے اور توقیر احمد شریفی نے شاعری کا سہارا لیا اور یہ حقیقت ہےافلاطون سے لے کر شبلی نعمانی تک تمام مفکرین نے خطابت کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا ہے خطابت ایک ایسی ساحری ہے جو سامع کو اپنا اسیر کر لیتی ہے خطیب اپنے بسیط الفاظ سے سامع کے حواس خمسہ پر قبضہ کر لیتا ہے اور ایسا ہی خطیب اور سی ٹی این کے فورم پر بول رہا تھا ۔ جس کے بارے میں اغا شورش کاشمیری نے 1972 میں کہا تھا ۔

دیکھ کر جس کو میرا شوق جواں ہوتا ہے

ایسے شخص پہ تابش کا گماں ہوتا ہے

میری مراد سید تنویر عباس تابش سے ہے تنویر عباس تابش اغا شورش کاشمیری کی صدائے بازگشت ہیں نقابت و نظامت جناب سطوت بٹ نے بڑی خوبصورتی سے کی گو ان کے سامنے سی ٹی این کے معزز ممبران بھی موجود تھے۔ سی ٹی این کی معزز رکن سیکرٹری محترمہ فردوس نثار بھی شریک نظامت و نقابت چند ثانیہ رہی ۔ نظامت و نقابت کے فرائض بڑے حساس ہوتے ہیں اور اس میں سر مو جانبداری نہیں برتی جا سکتی ۔

زندگی قادر مطلق کی امانت ہے عزیز

اس میں ہلکی سی خیانت سے بھی ڈر لگتا ہے

جناب سطوت بٹ نے تلاوت قران کریم کی سعادت راقم کو عطا کی اس کے بعد قومی ترانے کے احترام میں سامعین ایستادہ ہو گئے اور مجھے یوں سرکاری تقریبات میں بیساکھیوں والے معذور کے بارے میں افتاب جاوید کا گیان یاد اگیا ۔

اگر سیکورٹی والے مجھے اپنی بیساکھیاں اندر لانے دیتے تو میں بھی قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہو جاتا

خطبہ استقبالیہ کیا تھا ۔ ؟ مسعود علی خاں کی مسکراہٹوں کے پھولوں کی مہک تھی اور سامعین کی تالیوں کی گونج میں جناب مسعود علی خان چیئرمین سی ٹی این بلبل ہزار داستاں کی طرح چہک رہے تھے اپ نے سب کو جشن یوم ازادی مبارک باد کہا اور طوالت پر اختصار کو ترجیع دیتے ہوئے انے والے مقررین کے لیے اپنا بقیہ وقت بھی وقف کر دیا ۔ نقیب محفل نے مسعود علی خان کے اوصاف حمیدہ ایک شعر میں بیان کر دیے

رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا ہے

یہ شخص دھوپ میں چھاؤں جیسا ہے

ائر کموڈور خالد چشتی نے قائد اعظم محمد علی جناح کے بصیرت افروز افکار و نظریات کی روشنی کی لو سامعین کے دلوں میں فروزاں کر دی اور حیرت انگیز عجوبہ ء روزگار واقعات سے سامعین کے اجسام و ابدان میں ایک لرزش خفی پیدا کر دی ۔ائر کموڈور خالد چشتی کی اس تحقیق کے عقب میں راتوں کا ارام کا ایثار اور دنوں کی محنت کار فرما ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اج امریکہ میں بھی اہل دانش اپ کے لیے دیدہ و دل فرش راہ ہیں ۔

امد جو سنی ان کی اللہ رے انتظار

انکھیں بچھا دی ہم نے جہاں تک نظر گئی

سطوت بٹ نے سید تنویر عباس تابش کا تعارف کروانے کا خوشگوار فریضہ اپنے روٹیرین دوست سے کروایا اس کے بعد سید تنویر عباس تابش مائیک کی طرف بڑھے اور گویا ہوئے کہ ایوب دور میں مجھے ایک سال کی اسیری نے میری بصیرت میں دیدہ وری کی ساری خصوصیات پیدا کر دی ۔ ۔ میں جب جیل گیا تو میری ماں کے سر کے ایک بال سفید تھا لیکن جب سال کے بعد واپس ایا تو میری ماں محترمہ فاطمہ جناح کی صورت میں بدل چکی تھی ۔ سید تنویر عباس تابش نے قید و بند کی صعوبتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شکوہ و شکایات سے اپنے اپ کو محفوظ رکھا ۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ادھی زندگی ریل میں اور ادھی جیل میں گزری تھی اور انہوں نے ہلکا سا شکوہ بھی کیا تھا کہ جیل خانہ میری بیوی کا حق مہر نہ تھا اور نہ ہی وہ عفیفہ ء خاتون اپنے ساتھ جہیز میں لائی تھی ۔ سید تنویر عباس تابش اسی قبیلہ مجنوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے جنون نواز کارنامے ہماری تاریخ کے رخ تاباں پر صبح قیامت تک کہکشاں کی مسجع اور مقفعہ عبارتوں کی طرح جگمگاتے رہیں گے دنیا کی کوئی طاقت ان کے نام نامی اسم گرامی کو انسانی حافظوں سے محو نہ کر پائے گی سید تنویر عباس تابش اپنے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.