فقیر سیف الدین ۔۔۔لاہور کا انسائکلیو پیڈیا
کنکریاں ۔۔۔۔۔۔زاہدعباس سید
گزشتہ سے پیوستہ روز مجھے برسوں بعد اندرون شہر جانے کا اتفاق ہوا ،بھاٹی گیٹ کے باہر گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرکے پیدل ہی اس سفر کا آغاز کیا ایک غیر ملکی دوست کی فرمائش پر سرکاری محکمے کے افسر سے معمول کی ملاقات ہوئی اور واپسی کا ارادہ کیا ،دفتر سے نکل کر چند منٹ بعد میں ٹبی تھانے کے سامنے تھا ،بادشاہی مسجد کا نظارہ کئی بار کرچکا اور اس حوالے سے بہت کچھ لکھا بھی ہے ۔تاہم آج نظر کسی ایسی تاریخی عمارت کی متلاشی تھی جو کم ازکم میری نظروں سے اوجھل رہی ہو ،دائیں,بائیں کئی پرانی عمارات اپنے مکینوں کی کہانیاں لئے آج بھی میرے لئے جاذب نظر اور توجہ کا مرکز بنی رہیں ،صدیوں سے آباد ان مکانوں کے مکین تبدیل ہورہے ہیں ،بقول شاعر
جو ہم نہ ہونگے کوئی اور آبسے گا یہاں
مکاں یہ ہونگے نہ خالی کبھی مکینوں سے
ذہنوں پر نقش ہوجانے والی تاریخی حویلیوں کے دروازوں پر لکھی عبارتیں پڑھ رہا ہوں۔ان تحریروں سے تاریخ کے آئینے میں صدیوں پرانی عمارات کی اہمیت و افادیت عیاں ہورہی ہے ۔اب واپسی کا سفر اختتام کے قریب ہی تھا کہ اندرون بھاٹی گیٹ بازار حکیماں کی جس عمارت کی عبارت دیکھ کر میں وہیں ساکت ہوگیا ،دروازے پر دستک دی۔اپنے خوبصورت دوست کا نام بتایا، ملازم نے مجھے ان کا فون نمبر دیا میں نے نمبر ملایا تو چند لمحوں بعد پاکستان کے دوسرے بڑے عجائب گھر کے ڈائریکٹر فقیر سیف الدین میرے سامنے تھے ،انتہائی محبت کیساتھ وہ مجھے حویلی کے اندر لے آئے ۔اٹھارویں صدی سے آبادفقیر سید سیف الدین کے خاندان کی ساتویں نسل بھی آج یہاں موجود ہے ،فقیر سیف الدین کی شناسائی سے پہلے میری فقیر اعجاز الدین سے بھی نیاز مندی رہی،لاہور کی تاریخ کے حوالے سے انکی کتاب بھی ہم نے فرنٹیر پوسٹ پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کی تھی ،کئی برس بعد میری فقیر سیف الدین سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے “فقیر خانہ “آنے کی دعوت دی مگر اس کے بعد میں انکے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنے کے باوجود اس تاریخی عمارت اور دنیا کے دلچسپ عجائب گھر”فقیرخانہ ” کو دیکھنے سے محروم رہا تھا ،پہلی ملاقات میں ہی فقیر سیف نے میرے دل میں جگہ بنالی تھی کیونکہ لاہور کے حوالے سے فقیر اعجاز الدین کی طرح ان کا مطالعہ بھی واجبی نہیں تھا ،فقیر سیف نے لاہور پر بڑی زبردست تحقیق کی ہے ،لاہور میں انسانی آبادی کی موجودگی ساڑھے سات ہزار سال سے بھی پہلے ہونے کا دعویٰ تحقیق سے ثابت کرنے والے فقیر سیف کو بلاشبہ آج لاہور کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جاسکتا ہے ،قدیم آباد کاروں میں شامل لاہور کے سادات گھرانے نے علم وتحقیق پر نسل در نسل کام کرکے نئی تاریخ رقم کردی ،تاریخی حقائق انکی نسلوں کو منتقل ہوتے رہے اور یہ سلسلہ اب فقیر سیف الدین تک آپہنچا ہے ،فقیر سیف الدین اپنے مشاہیر کی اعلی ‘ روایات کو انتہائی قرینے سے نبھا رہے ہیں ، فقیر سیف الدین کے خاندان کی روایات نے علم و تحقیق کے نئے در کھولے ہیں ،انکی خوبیوں کو ہر دور میں سراہا گیا ہے ،”فقیر خانہ ” عجائب گھر بہت بڑا اثاثہ ہے ،صدیوں سے علم وتحقیق کرنے والے لاہور کے اس سادات خاندان کے منفرد کام کی دنیا معترف ہے ،منگل کی شام جس عمارت میں خاکسار فقیر سیف الدین کا مہمان رہا یہ عمارت فقیرخانہ کے نام سے مشہور ہے ،فقیر خانہ نجی عجائب گھر ہے، جو پچھلی 7 نسلوں سے اندرون لاہور کے فقیر خاندان کے زیر انتظام قائم ہے۔ اس عجائب گھر میں کم و بیش 30,000 تبرکات و نوادرات محفوظ ہیں۔ یہ عجائب گھر بھاٹی دروازہ کے اندر واقع ہے.بھاٹی دروازے سے قدیم لاہور میں داخل ہوں تو کچھ فاصلے پر دائیں جانب ایک بڑی سی حویلی نظر آتی ہے، جسے ’’فقیرخانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس عمارت کو لاہور کا دوسرا بڑا عجائب خانہ تسلیم کیا گیا ہے۔اس کے موجودہ ڈائریکٹر فقیر سیف الدین ہیں۔نوادرات سے محبت اس خاندان کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ فقیر سید نور الدین کے بعد یہ نوادرات جس کے بھی حوالے ہوئے اس نے نہ صرف پوری ذمہ داری سے ان کی حفاظت کی، بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا۔ اس طرح تقریباً اڑھائی سو سال سے یہ خاندان ان تبرکات کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔مجھے اس وقت دھچکا لگا جب فقیر سیف الدین نے بتایا کہ صدیوں سے قائم “فقیر خانہ ” کی اب موجودہ نے گرانٹ بند کر رکھی ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور کے دوسرے بڑے عجائب گھر کی دیکھ بھال اور حفاظت کیلئے سرکاری طور پر اعانت سے ہاتھ کھینچ لینا قومی ورثے کو ضائع کرنے کے مترادف ہے ،وزہراعظم شہباز شریف اور وزیراعلی’ مریم نواز شریف کو اس پر فوری نوٹس لیتے ہوئے فقیرخانہ عجائب گھر کی سرکاری سرپرستی کی ذمے داری کو نبھانا چاہئے ۔اگر آج ہم نے اپنے قومی ورثے کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔