آج بھی بھٹو زندہ ہے

39

(حصہ اوؔل، دوم، سوم)

حصہ اوؔل

سال 2011 صدر آصف علی زرداری کی جانب سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا۔ پاکستانی عدلیہ کے معزز ججز جو آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی اور ایمانداری سے اپنی بہترین صلاحیت اور دیانتداری سے انجام دینے اور آئین پاکستان کی حفاظت اور دفاع کا حلف اُٹھاتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں، ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ، قانون کے مطابق، بلا خوف و خطر، پیار اور ناخوشگوار سلوک کریں گے مگر افسوس سال 2011سے لیکر دسمبر 2023 تک پاکستان کے کسی چیف جسٹس کو صدارتی ریفرنس کو عدالتی کاز لسٹ میں شامل کرنے کی ہمت و جرآت پیدا نہ ہوسکی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو اس بات کا کریڈٹ ضرورجاتا ہے کہ جہاں انہوں نے کئی دلیرانہ اقدامات کئے ہیں جیسا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی سپریم کورٹ میں ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ، اہم مقدمات کی براہ راست نشریات ، فیض آباد دھرنا نظر ثانی مقدمہ ، جسٹس شوکت صدیقی کی بحالی ، اسی طرح سپریم کورٹ کے سردخانوں میں چھپائے گئے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر صدارتی ریفرنس کو کاز لسٹ میں شامل کرنا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل بینچ نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل پر اُٹھنے والے تمام سوالوں کے جوابات کی تلاش میں آمر ضیاءالحق کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات اور عدلیہ میں بیٹھے آئین و قانون کے رکھوالے ججزکے گھناؤنے کردار آشکار کردیے ہیں۔ صدارتی ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ کی جانب سے 48 صفحات اور 78 نکات پر مشتمل جاری تفصیلی فیصلہ/رائےکو قانون و سیاست کے طالبعلم حتی کہ پاکستان کے ہر شہری کو پڑھنا بہت ضروری ہے تاکہ پاکستانی عوام کو پتا چلے کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں اور عدلیہ میں بیٹھے نام نہاد ججز نے کیا کیا سیاہ کارنامے اور گل کھلائے تھے اور کیسے ان آمروں اور ججوں نے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی تھیں۔ پاکستان یا شائد دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہوگا کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ کا ٹرائل سیشن کورٹ کی بجائے براہ راست ہائیکورٹ میں کیا گیا۔بہرحال عدالتی رائے کی بدولت تاریخ کے اوراق میں پوشیدہ حقائق منظر عام پر آچکے ہیں۔ آئیے سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر جاری شدہ رائے میں تلخ حقائق کا مطالعہ کریں:
اول:  ٹرائل اور اپیل کورٹس، جنہوں نے مقدمے کی سماعت کی اور اپیل کی سماعت کی، آئین کے تحت حقیقی عدالتیں نہیں تھیں۔ ملک مارشل لاء کا اسیر تھا اور اس کی عدالتیں بھی۔ جب جج آمروں سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں تو عدالتیں عوام کی نہیں رہتیں۔
دوم:  سپریم کورٹ کے تین معزز ججز جنہوں نے بھٹو کو بری کیا تھا، انہوں نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا تھا کہ مملکت میں 5 جولائی 1977 سے آئین میں درج بنیادی حقوق معطل ہیں اور یہ کہ بھٹو کو آئین میں بنیادی حقوق اور دیگر حقوق کا آئینی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ اور یہ انکشاف کیا کہ آئین معطلی کے دوران دیگر بے گناہوں کو پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا گیا تھا۔
سوم:  ٹرائل کورٹ، جس نے بھٹو پر مقدمہ چلایا تھا اور انہیں سزا سنائی تھی، اور اپیل کورٹ، جس نے ان کی اپیل خارج کر دی تھی، اس وقت کام کر رہی تھی جب ملک میں کوئی آئینی قاعدہ قانون نہیں تھا اور ایک آدمی کی مرضی اور خواہش قانون سازی بن گئی تھی اور آئین و قانون کی جگہ فرد واحد جنرل ضیاءالحق نے لے لی تھی۔ بدقسمتی سے عدالت نے بھٹو کیس میں، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو سراہا۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نےملک بچانے کے لیے قدم بڑھایا ہے۔ کیا یہ واضح نہیں تھا کہ مجرم کے فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوگا۔ اگر بھٹو بری ہوجاتے تو وہ جنرل ضیاء الحق کے خلاف سنگین غداری کے جرم میں مقدمہ چلا سکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی ذاتی بقا کا انحصار بھٹو کے مجرم قرار دیے جانے پر تھا۔ غاصب اقتدار کے تسلسل کے لیے مسٹر بھٹو کو سزا سنانے کی ضرورت تھی۔جبکہ دین اسلام مراعات یافتہ طبقات کی تخلیق پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ سب کی قانون کے سامنے برابری پر یقین رکھتا ہے – حکمران اور حکومت یکساں۔ یہ ہر قسم کی طبقاتی تفریق کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ خلیفہ، بادشاہ، وزیر اعظم یا صدر، حکمران کو جس بھی نام سے پکارا جائے، ملک کے قانون کا اتنا ہی تابع ہے جتنا کہ کوئی عام شہری، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا، جس نے اپنے اندر ایک مطلق العنان بادشاہ کے تمام اختیارات جمع کر لیے تھے۔
چہارم:  بھٹو نہ تو کرپشن کے مقدمے میں تھے اور نہ ہی آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں، تاہم معزز جج صاحبان نے ان معاملات کے بارے میں بھی بے جا ریمارکس دیے۔
پنجم:  جسٹس مشتاق حسین مقدمے کی سماعت ہائی کورٹ منتقل کرنا، ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ سے زیر التواء شکایتی کیس کو ہٹا کر ٹرائل کورٹ کے سامنے طے کرنا، جس کے وہ خود سربراہ تھے، غیر معمولی تھا۔ قانون پر عمل نہیں کیا گیا اور طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ گئے۔جسٹس مشتاق حسین کی جانب سے بھٹو کو نوٹس جاری کیے بغیر مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ منتقل کرنے کے حوالے سے حکم نے اس پرانی حکمت کو نظر انداز کیا کہ ایک فریق سماعت کے موقع کا حقدار ہے۔ بھٹو مقدمہ میں کہا گیا کہ موجودہ معاملے میں اس طرح کے نوٹس کی ضرورت نہیں تھی۔
ششم:  لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے مقدمے کی کارروائی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی اپیل پر منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق اور آئین کے آرٹیکل 4 اور 9 میں درج مناسب عمل کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ۔جبکہ آئین کے آرٹیکل 10A کے تحت علیحدہ اور آزاد ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے۔ (جاری ہے۔۔۔۔)

حصہ دوم

گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔ہفتم:  گیارہ نومبر 1974 کو مسٹر خان کے قتل کی تحقیقات، جو 3 مئی 1976 کو بند کر دی گئی تھی، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کے زبانی حکم پر دوبارہ کھولی گئی۔ استغاثہ نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ کیسے اور کیوں؟ بتیس ماہ پرانے کیس کی تحقیقات، جو چودہ ماہ قبل بند کر دی گئی تھی، دوبارہ کھول دی گئی۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تحقیقات ایف آئی اے کو کیسے اور کیوں منتقل کی گئیں۔ یہ دونوں کارروائیاں (تفتیش کا دوبارہ آغاز اور اس کی ایف آئی اے کو منتقلی) جنرل ضیاء الحق کی بغاوت کے بعد مسٹر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد کی گئیں۔ کیس دوبارہ زندہ کردیا گیا۔
ہشتم:  تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کا مقدمہ صرف سیشن کورٹ ہی چلا سکتا ہے۔ لہٰذا، تحقیقاتی رپورٹ، جو مجسٹریٹ کو پیش کی گئی، 12 ستمبر 1977 کو سیشن جج، لاہور کو بھجوا دی گئی۔ رپورٹ موصول ہونے کے بعد مقدمے کی سماعت شروع ہو چکی تھی۔ تاہم اگلے ہی دن 13 ستمبر 1977 مقدمہ فوجداری اصل نمبر 60/77، بعنوان ریاست بمقابلہ زیڈ اے بھٹو جسٹس مشتاق حسین، قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے آیا کیس کو ٹرائل کے لیے اس عدالت میں منتقل کیا گیا اس حقیقت کے باوجود کہ لاہور کے سیشن جج 12 ستمبر 1977 کو اس کیس کا نوٹس لے چکے ہیں۔ یہ ناقابل فہم ہے کہ پھر کیس کو قائم مقام چیف جسٹس مشتاق حسین کی عدالت میں کیوں پیش کیا گیا۔ جسٹس مشتاق حسین نے فوری طور پر اور اسی دن 13 ستمبر 1977 کو مندرجہ ذیل حکم جاری کرتے ہوئے مذکورہ پٹیشن منظور کرلی، درخواست میں کی گئی گذارشات کے پیش نظر کیس کو ٹرائل کے لیے اسی عدالت یعنی لاہور ہائیکورٹ میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس کی سماعت فل بنچ کرے گی۔ اور حیران کن طور پر فل بینچ کی سماعت کی سربراہی بھی جسٹس مشتاق حسین نےخود ہی کی۔
نہم:  24 ستمبر 1977 کو بھٹو اور دیگر شریک ملزمان کا ٹرائل شروع ہوا۔ ہائیکورٹ نے شواہد طلب کرنے کا حکم دیا تاہم ملزمان عدالت میں موجود ہونے کے باوجود ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ اگلی تاریخ یعنی 3 اکتوبر 1977 کو بھی چارج فریم نہیں کیا گیا۔ چارج فریم کرنا ایک لازمی شرط ہے، اور اس کے فریم ہونے کے بعد ہی مقدمے کی سماعت شروع ہو سکتی ہے۔ بالآخر 11 اکتوبر 1977 کو الزام عائد کیا گیا جبکہ تمام ملزمان نے جرم قبول نہیں کیا۔ 11 اکتوبر 1977 سے 25 فروری 1978 تک لاہور ہائی کورٹ جو ٹرائل کورٹ کے طور پر کام کر تی رہی نے استغاثہ کے اکتالیس گواہوں اور چار دفاعی گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ 2 مارچ 1978 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا اور 18 مارچ 1978 کو اس کا اعلان کیا گیا۔ بھٹو کو تعزیرات پاکستان میں درج جرائم کی درج ذیل دفعات کے تحت سزا سنائی گئی: (a) دفعہ 120-B پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنائی، (b) دفعہ 302 کیساتھ دفعہ 301 اور 111  ملاکر سزائے موت اور (c) دفعہ 307  اور دفعہ 109  ملاکر، ہر جرم کے لیے سات سال سخت قید کی سزا سنائی گئی۔
دہم:  ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کی، لیکن ان کی اپیل 6 فروری 1979 کو چار تین کی اکثریت سے خارج کر دی گئی۔ بھٹو کی فوجوداری اپیل کو مسترد کرنے والے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی، لیکن اسے 24 مارچ 1979 کو متفقہ طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔
گیارہ:  ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے لئے پھانسی کے وارنٹ یعنی ڈیتھ وارنٹ پر جسٹس مشتاق حسین نے دستخط کیے جو اب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن چکے تھے۔ موت کے وارنٹ کا اختتام ان الفاظ میں ہوا:  میرے ہاتھ اور عدالت کی مہر کے تحت 25 مارچ 1979 کو دیا گیا، اور راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل کو اپریل 1979 کے دوسرے دن سزا پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی۔ پھانسی کی تاریخ بعد میں اپریل 1979 کے چوتھے دن میں تبدیل کر دی گئی۔ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی نے ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 بروز بدھ راولپنڈی میں اس وقت تک گردن سے لٹکایا گیا جب تک وہ مر نہیں گئے۔ اور یہ کہ لاش پورے ایک گھنٹہ تک لٹکی رہی اور اس وقت تک نہیں اتاری گئی جب تک کہ میڈیکل آفیسر نے زندگی کے معدوم ہونے کا یقین نہ کرلیا۔
بارہ:  صدر زرداری کے ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں، اور زور دینا چاہتے ہیں کہ ہم کسی درخواست، اپیل یا نظرثانی کی درخواست کی سماعت نہیں کر رہے ہیں۔ نہ تو آئین اور نہ ہی قانون ایسا طریقہ کار فراہم کرتا ہے جس کے تحت بھٹو کی سزا کو کالعدم قرار دیا جاسکے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے نظرثانی کی درخواست خارج ہونے کے بعد بھٹو کی سزا حتمی شکل اختیار کرچکی ہے۔  آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ہمارے مشاورتی دائرہ اختیار میں فیصلے کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔تیرہ:  بھٹو کی سزا اور سزا کے حوالے سے 6 مارچ 2024 کو ہم نے درج کیا تھا کہ اپنی تفصیلی وجوہات میں، ہم ان بڑی آئینی اور قانونی خامیوں کی نشاندہی کریں گے جو منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے حوالے سے ہوئی تھیں۔ اس کی تفصیلی وجوہات درج ذیل ہیں۔   ( جاری ہے۔۔۔۔۔۔)

حصہ سوم

گزشتہ سے پیوستہ :  11 نومبر 1974 کو ہونے والے قاتلانہ حملے کی تحقیقات پولیس نے شروع کی، تاہم کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے کیس سی آئی اے کو منتقل کر دیا گیا، لیکن پھر بھی مجرموں کا پتہ نہیں چل سکا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ایک ٹریبونل تشکیل دیا گیا جس نے کچھ ہدایات جاری کیں لیکن مجرمان کا سراغ لگانے میں ناکامی رہی۔ اس کے بعد تفتیش کو بند کرنے کی سفارش کی گئی جسے مجسٹریٹ نے قبول کر لیا اور 3 مئی 1976 کو تفتیش کو باضابطہ طور پر بند کر دیا گیا۔ کسی نے تفتیش بند کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔ تفتیش کو دوبارہ کھولنے کے لیے کوئی درخواست جمع نہیں کروائی گئی اور نہ ہی کسی عدالت نے تفتیش کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا۔ شکایت کنندہ احمد رضا خان قصوری، جو خود وکیل تھے، نے بھی تفتیش کی بندش پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی یہ اعتراض اٹھایا کہ اس کی بندش قبل از وقت ہے۔
جنرل ضیاء کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی دنوں میں، جن کو ملزم بنایا گیا تھا، گرفتار کر لیا گیا، اور جس جرم کا سراغ نہیں لگایا جاسکا تھا اور جس کی تفتیش بند کر دی گئی تھی، بغیر اجازت کے دوبارہ کھول دی گئی اور بغیر اجازت ایف آئی اے نے اس کی دوبارہ تفتیش شروع کردی۔ ہر وہ شخص جسے بھٹو کے ساتھ شریک ملزم بنایا گیا تھا اس نے حیرت انگیز طور پر جرم کا اعتراف کر لیا تھا۔ اور ہائی کورٹ نے یکطرفہ طور پر اور سنے بغیر خود ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا، جو مکمل طور پر بے مثال تھا۔ بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا تھا جنہوں نے 5 جولائی 1977 کے اپنے اقدامات سے آئین کے آرٹیکل 6 کی واضح خلاف ورزی کی اور سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا جس کی سزا عمر قید یا موت ہے۔ اس لیے جنرل ضیاء کے پاس بھٹو کے خلاف کارروائی کا ایک مقصد تھا، کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بھٹو ان کے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ چلاتے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یعنی ایف آئی اے کو ایف آئی اے ایکٹ 1974 کے شیڈول میں درج جرائم کی تحقیقات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، لیکن یہ کسی ایسے جرم کی دوبارہ تفتیش کی اجازت نہیں دیتا جس کی پہلے ہی تفتیش ہو چکی ہے۔ پولیس کی طرف سے اور تفتیش کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئی عدالتی حکم جاری نہیں کیا گیا جس میں یہ ہدایت کی گئی ہو کہ تفتیش دوبارہ شروع کی جائے یا ایف آئی اے کے ذریعے جرم کی دوبارہ تفتیش کی جائے۔ ایف آئی اے کو کیس کی فائل 8 اگست 1977 کو موصول ہوئی تھی لیکن اس نے پہلے ہی 24 جولائی 1977 کو ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالخالق کی کیس ڈائری کے مطابق دوبارہ تفتیش شروع کر دی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے سے تصور شدہ مقصد تھا۔ یہ خلاف ورزی ٹرائل کورٹ کے ججوں اور اپیل کورٹ کے ججوں کی اکثریت کی توجہ سے بچ گئی۔
دوبارہ تحقیقاتی رپورٹ 12 ستمبر 1977 کو سیشن جج، لاہور کو پیش کی گئی جنہوں نے پبلک پراسیکیوٹر سے رپورٹ طلب کی۔ تاہم اگلے ہی دن13 ستمبر 1977 کو یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج، یعنی جسٹس مشتاق حسین کے سامنے رکھا گیا، جس نے سب سے غیر معمولی کام کیا۔ بھٹو اور دیگر ملزمان کو نوٹس جاری کیے بغیر، انہیں سماعت کا موقع فراہم کیے بغیر اور انہیں قانونی نمائندگی حاصل کرنے کے قابل بنائے بغیر، انہوں نے حکم دیا کہ درخواست میں کی گئی گذارشات کے پیش نظر مقدمہ ہائیکورٹ میں جسٹس مشتاق حسین کی لاہور ہائیکورٹ کی عدالت میں منتقل کیا جاتا ہے۔
ضابطہ فوجداری، 1898 کی دفعہ 526 ہائی کورٹ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ فوجداری مقدمہ خود منتقل کر دے اگر: (اے) منصفانہ ٹرائل ممکن نہ ہو، (بی) کیس میں غیر معمولی مشکل کے قانون کے کچھ سوالات شامل ہوں، (سی) اگر اس جگہ یا اس کے آس پاس جہاں کوئی جرم کیا گیا ہے اسے دیکھنے کی ضرورت ہے، (ڈی) یہ فریقین یا گواہوں کی عام سہولت کے لیے ہو گا یا (ای) انصاف کی منزل کو محفوظ بنانے کے لیے۔ تاہم، جسٹس مشتاق حسین، قائم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اپنے عدالتی حکم نامہ میں کوئی وجہ بیان نہیں کی، کہ کیونکر سیشن کورٹ سے ہائیکورٹ میں مقدمہ ٹرائل کے لئے منتقل کیا جارہا ہے۔
قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ کرتی ہے۔ جبکہ سزا کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں ۔ آئین کا آرٹیکل 185(2)(b) اور ضابطہ کے سیکشن 411-A اور 526 ہائی کورٹ کو ٹرائل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن یہ دفعات ہائی کورٹ کو قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے کا اختیار نہیں دیتے۔ ہائی کورٹ میں قتل کا مقدمہ چلانے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہائی کورٹ کے ذریعے بھٹو کے قتل کے مقدمے نے تاریخ رقم کردی۔ نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد ایسا ہوا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے دیگر ممالک ، جہاں ایسی ہی قانونی دفعات ہیں، کسی ہائی کورٹ نے کبھی قتل کا مقدمہ بطور ٹرائل کورٹ نہیں چلایا۔
قتل کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے، ہائی کورٹ نے آئین کی متعدد دفعات اور ضابطہ فوجداری بے کار کردیا۔ دفعہ 374 کا تقاضا ہے کہ موت کی ہر سزا کی ہائی کورٹ سے تصدیق ضروری ہے۔یہ مان لیا جائے کہ ہائی کورٹ قتل کا مقدمہ چلا سکتی تھی، تو سزا کی تصدیق ہائی کورٹ سے کروانا لازم تھا۔ ہائی کورٹ کے کوئی بھی دو جج جنہوں نے مقدمے کی سماعت نہیں کی وہ ضابطہ کی دفعہ 376 کے مطابق ایسا کر سکتے تھے۔ لیکن، ایسا نہیں کیا گیا۔ سزائے موت کی تصدیق کیے بغیر انہیں پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 376  جو موت کی سزا پانے والوں کو ضروری تحفظ فراہم کرتی ہے لیکن اس شق کو نظر انداز کردیا گیا۔ (جاری ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.