جہیز ولیمہ اور نصابِ تعلیم

33

جہیز اور ولیمہ ایک معاشرتی ناسور بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جہاں آئے روز لاتعداد عبث ویڈیوز کی بھر مار ہے وہیں گزشتہ دنوں ایک خوش نما ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ جس میں ایک شخص نے ولیمے کی فضول رسومات کو ترک کرتے ہوئے اپنے اردگرد کے 600 ضرورت مند خاندانوں میں راشن اور نقدی تقسیم کی ہے۔ اس ویڈیو کو دنیا بھر میں بسنے والے مسلم قارئین نے خوب سراہا ہے۔

اس وقت شاید ہی کوئی مسلم گھرانہ ہو، جو بے تحاشا مہنگائی کے ہاتھوں جہیز کی رائج الوقت رسومات سے بوکھلاہٹ کا شکار نہ ہو۔ اس کی مزمت پر بہت کچھ لکھا جا چکا، بہت کچھ بیان ہو چکا ہے؛ لیکن یہ مسئلہ جُوں کا تُوں کھڑا ہے۔

یہ مسئلہ چوں کہ انفرادی نہیں بل کہ اجتماعی برائی بن گیا ہے۔ لہٰذا مل جل کر اس کی روک تھام کی حاجت ہے۔

دراصل یہ رسم لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے، اگر وہ مردانگی کا مُظاہرہ کریں تو اس کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے لیکن ہمارے یہاں یہ رسم اس قدر شدت سے رائج ہے کہ اگر کوئی لڑکی جہیز کے بغیر بیاہ کر لے آئیں تو لڑکے کے گھر والے عمر بھر جہیز نہ لانے کے طعنے دے دے کر مار دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کے ذمہ کوئی قرض تھا، جس کی ادائیگی ہر حال میں ان پر فرض تھی۔

کچھ روز قبل میرے جاننے والوں میں ایک لڑکی کو شادی کے ایک ہفتے بعد محض اس لیے طلاق دی گئی کہ لڑکی کے ماں باپ نے جہیز میں سسرال والوں کے مطالبے پر گاڑی لے کر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسی بے حسی ہمارے معاشرے میں بہت عام ہوتی جا رہی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں دور دور تک رشتوں کا کوئی تقدس نہیں رہا۔ ہم رشتوں کو بیچتے ہیں اور جتنا بڑا گاہک مل جائے اتنا زیادہ بھاؤ طے کرتے ہیں۔ آج آپ کو رشتوں میں دور دورتک قربت اور مٹھاس نظر نہیں آئے گی بل کہ آج کل رشتے زر کے ہو چکے ہیں۔ جس کے پاس جتنا مال و زر ہو گا اس کے اتنے ہی زیادہ رشتے دار اور تعلق دار ہوں گے اور جو بے چارہ مالی طور پر فرسودہ حال ہوگا اس کا کوئی رشتہ دار تو دور کی بات کوئی اسے اپنے جیسا انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہ ہوگا۔

ویسے بھی ہمارے ملک میں آج کل جینے کے لیے دو چیزیں لازم و ملزم ہو چکی ہیں۔ ایک مال و زر اور دوسرا کھڑ پینچی۔ کیوں کہ ہماری اکثریت کا ذہن بن چکا ہے کہ اچھی باتیں اور حُسنِ اخلاق صرف کتابوں میں اچھا لگتا ہے، عملی طور پر اس کی حاجت نہیں ہوتی۔

اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہمارے نصاب تعلیم کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگی نہ ہونا بھی ہے۔

میرے پاس اس وقت سرکاری و نیم سرکاری اداروں کا پرائمری سے پی ایچ ڈی تک کا نصاب موجود ہے۔ جن میں اکثر کتابوں کے مؤلفین کے نام درج ہیں، جو نصاب کو مرتب کرتے ہیں لیکن افسوس جن پروفیسرز نے یہ نصاب مرتب کیا، وہ خود مؤلف تو ہیں، مصنف نہیں۔ لہٰذا جن لوگوں نے نصاب مرتب کیا وہ خود نقال ہیں تو پڑھنے والے کیا خاک تخلیق کار ہوں گے؟

اس نصابِ تعلیم میں صدیوں پرانے وہی غالب، منشی پریم چند، میر تقی میر، انگلش قوائد کے پرانےاصول و ضوابط، ریاضی اور سائنس کے پرانے نظریات کو کبھی چھوٹے کبھی بڑے حروف میں چھاپ کر ہمارے نصاب کے مؤلفین خوشیاں مناتے ہیں۔

کیا ہم یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ دو سو سال قبل کا رائج کیا گیا یہ نصاب کبھی اردو کبھی انگلش میں پڑھانا کون سی دانش مندی ہے؟

مجھے تو لگتا ہے ہم ڈھانچا نما قوم ہیں اور دیگر اقوام کے لوگ جب چاہیں ہمیں روبوٹ بنا کر گُھما لیتے ہیں۔ عقل، تخلیق، شعور اور استعداد ہمارے اندر پیدا ہی نہیں ہونے دی جا رہی یا ہم خود اس کو ہتک عزت سمجھتے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام باتیں تلخ ضرور ہیں مگر ہم ان سے مُبرا نہیں ہو سکتے۔ ہماری نسلیں کل ضرور ہم سے یہ سوال کریں گی اور ہم کب تک قوم سے یہ حقائق چھپاتے رہیں گے؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.