الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری پر ملا جلا ردعمل

13

قومی اسمبلی سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری ہوئی ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے ملاجلا ردّعمل سامنے آیا ہے ،قانون سازی کے عمل کو بہتر قرار دیا گیا ہے واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں مسلم لیگ (ن) رکن اسمبلی بلال اظہر کیانی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا،حکومتی ارکان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا،ترمیمی بل کے مطابق انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہو گا، مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔ترمیمی بل میں کہا گیا کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل غیر آئینی ہے، علی محمد خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا حق ہمیں سپریم کورٹ سے ملا ہے، سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا ہے آپ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں، آپ کس طرح ہم سے ہمارا حق چھین سکتے ہیں، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سیاسی مقاصد کے لیے پیش کیا گیا۔علی محمد خان نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر حملے کے لئے استعمال کیا گیا ، قانون سازی بے شک کریں مگر قانون سازی پاکستان کے مفاد میں ہونی چاہئے، اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسی ایوان میں 81 ارکان نے حلف دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں، آج کہتے ہیں کہ نہیں ہم فلاں جماعت کا حصہ ہیں؟ کسی ایک بات پر تو کھڑے ہوں، ہم صرف اور صرف انتخابات کے قانون میں وضاحت لا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قانون سازی صرف اور صرف اس ایوان کا اختیار ہے کسی اور کو نہیں ہے، اللہ کے 99 ناموں کے نیچے کہتا ہوں کہ یہ قانون سازی آئین اور قانون کے مطابق ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آئین اور قانون کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے،دو تہائی اکثریت سے جیتے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، تھی اور رہے گی،۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آئین بناتا ہے اور دیگر ادارے اس کی تشریح کرتے ہیں، ایک روش تھی کہ حکومت کوگھر بھیج دیا جاتا تھا، اس کا تسلسل توڑا گیا اور یہ روایت ختم کردی گئی، اعتراضات آج بھی ہیں، لیکن جمہوریت جیسی بھی ہو، اس پر اعتراضات بھی ہوں، لیکن جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ ایک دوسرے کے سیاسی، آئینی وقانونی موقف کا احترام ہونا چاہیے، اس کی وجہ سے اداروں پر حملہ نہیں ہونا چاہیے، پارلیمنٹ سپریم ہے، یہ آئین اور قانون کے مطابق اس کی ایوان کی جو قدر وقیمت اور طاقت ہے وہ کسی اور ادارے کو حاصل نہیں، یہ ادارہ آئین بناتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کےاس سفرمیں خامیاں ہوسکتی ہیں، اس پر سوالیہ نشان نہ لگائیں، امریکا سمیت دیگر جمہوری ممالک میں بھی کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ قوم کا 75 سال سےکشمیر پر ایک ہی موقف ہے، جو اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں میں رجسٹرڈ ہوچکا ہے، مسئلہ کشمیر کو سپورٹ نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم اس کی نفی بھی نہ کی جائے۔قومی اسمبلی میں بھارتی آئین میں ترمیم سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔قرارداد کے مطابق 5 اگست 2019 کے بھارتی غیر قانونی اقدامات اٹھائے گئے، اس دن کو پاکستان یوم استحصال کشمیر کے طور پر مناتا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان کشمیر کی غیر متزلزل سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے، ایوان لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے، بھارتی غیر ذمہ دارانہ بیانات کو مسترد کرتا ہے۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اگست جمعہ صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکمران اتحاد کو ایک بڑا دھچکا لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دے دیا تھا۔یہ فیصلہ 13 رکنی بینچ نے سنایا اور اسے یوٹیوب پر لائیو سٹریم کیا گیا، اس سے ایک دن پہلے عدالت نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں سے انکار کے خلاف دائر اپیلوں کے ایک سیٹ پر سماعت ختم کرنے کے بعد اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔30 جولائی کو انتخابی قانون میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز بلال اظہر کیانی کی طرف سے پیش کیے گیئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر کوئی 6سیاسی جماعت مقررہ وقت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے خواتین اور غیر مسلم امیدواروں کے لیے مخصوص نشستیں مختص نہیں کی جانی چاہیے۔31 جولائی کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے منظور ہونے والے متنازع بل کو سیاسی مبصرین کی طرف سے مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ان حالات میں قانون سازی کا بہرحال جاری رہنا بہتر ہے ،ایوان میں مکمل بحث مباحثے کے ساتھ قانون سازی کا عمل کئی پیچیدگیاں ختم کرنے کا باعث بھی ہوگا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.