سولر مافیا کی من مانیاں اور معصوم عوام

33

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
کمر توڑ مہنگائی میں بجلی کے بڑے بڑے بلوں کا بہت اہم کردار ہے جو ایک عام آدمی کے وسائل سے بہت دور جاچکے ہیں ۔یہ عام اور غریب آدمی آج سواۓ بجلی کی بچت اور اسکے اخراجات میں کمی کے کچھ بھی سوچنے سے قاصر ہو چکا ۔اس کے ذہن پر بجلی کے بھاری بھر کم بلز چھاۓ رہتے ہیں۔وہ ہر وقت اسی دھن میں رہتا ہے کہ کچھ ایسا کیا جاۓ کہ بجلی کی سہولت بھی ملتی رہے اور اس کے گھر کا کچن بھی چلتا رہے کیونکہ اب روٹی کی طرح بجلی بھی ہماری بنیادی ضرورت بن چکی ہے جس کے بغیر جینے کا تصور ہی نہیں ہو سکتا ۔یہی سوچ اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو سکے اپنے گھروں میں سولر سے بجلی حاصل کرکے زندہ رہا جاۓ ۔ ہمارے ملک میں سورج کی روشنی وافر مقدار میں اللہ کی جانب سے ایک نعمت ہے اس لیے سولر انرجی سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے اور سولر پاور کی دنیا میں ہر روز حیرت انگیز اور جدید تبدیلیاں اور ایجادات مارکیٹ میں آرہی ہیں جن کی باعث پرانا سسٹم اپنے مارکیٹ ریٹ کھو رہا ہے لیکن پھر بھی سولر کا نظام بھی کوئی سستا سودا نہیں ہے ۔اس لیے لوگوں نے اپنی جمع پونجی ،اپنے زیور ،اپنے جانور یہاں تک کہ اپنے موٹر سیکل بیچ کر سولر لگوانے کا فیصلہ کیا ہے ۔جن بےچاروں کے پاس ان میں سے بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہے وہ ادھار یا قرض پر سولر سسٹم لگوا رہے ہیں جس پر ایک بڑی رقم سود کی مد میں ادا کرنی پڑتی ہے ۔ایسے میں ہمارے بنکوں اور نجی کمپنیوں نے بھی عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔یہ ادارے ،کمپنیاں اور بنک بڑی تیزی سے سولر سسٹم انسٹال کروا رہے ہیں ۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ اشیاء خوردونوش اور موبائل کے علاوہ اس وقت سب سے زیادہ کاروباری سرگرمیاں اسی شعبہ میں دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ہر دوسرا شخص ایک فرم بنا کر یہ کام کر رہا ہے ۔ جن میں زیادہ تو لوگ نان ٹیکنیکل ہیں یا پھر الیکڑیشن ٹائپ مزدور ہیں جو صرف منافع کمانے کے لیے اس کاروبار کا حصہ بن رہے ہیں ۔میرے ساتھ کے بےشمار بینکار اس کاروبار میں شامل ہو چکے ہیں ۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست کے سولر سسٹم کو آگ لگی تو اس کی ذمہ داری کوئی قبول کرنے کو تیار نہ تھا مجبورا” پندرہ لاکھ کی خطیر رقم کا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔دوسری جانب سولر مارکیٹوں میں پاوں دھرنے کی جگہ نہیں ہے ۔ہر دوسرا شخص اگر لگو نہیں سکتا تو معلومات لینے وہاں ضرور جاتا ہے ۔مجھے بھی بجلی کےاخراجات کے خوف نے سولر سسٹم لگوانے پر مجبور کردیا ۔جب اس جانب قدم بڑھایا تو پتہ چلا کہ دیکگر مافیاز کی طرح سولر انڈسٹری کا بھی ایک بڑا مافیا وجود میں آچکا ہے ۔جو مختلف طریقوں سے معصوم اور مجبور عوام کی اس بارے ٔ میں لاعلمی سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور مختلف طریقوں سے بےتحاشا منافع کما رہا ہے ۔ایک ہی پاور کے سسٹم کے ریٹ پوری مارکیٹ میں تقریبا” یکساں ہی ہیں ۔ایک انسٹالر سے بات ہوئی تو اس نے پوری رقم ایڈوانس مانگی اور وجہ یہ بتائی کہ آے دن سولر پینل اور انورٹر کے ساتھ ساتھ وائرنگ کیبلز دیگر چیزوں کے ریٹ بھی بڑھ رہے ہیں ۔رقم وصول کرنے کے بعد وہ طے شدہ ریٹ سے کم ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں اور آپکی رقم کو تقریبا” ایک ماہ تک اپنے استعمال میں بھی رکھ سکیں ۔جب آپ کا واسطہ ماکیٹ کے دوکانداروں سے پڑتا ہے وہ اسے انہی آلات اور کیبلز کی تعریف و خصوصیات میں الجھا دیتے ہیں جو ان کے پاس موجود ہوتے ہیں ۔جن میں سے اکثر سامان برانڈڈ نہیں ہوتا ۔وہ اسے امپورٹڈ کیبلز یا آلات کہہ کر متعارف کراتے ہیں ۔جوں جوں معلومات بڑھیں تو احساس ہوا کہ شوگر مافیا ،گندم مافیا ،بجلی مافیا ۔چکن مافیا ،وغیرہ کی طرح سولر مافیا بھی ملک میں ایک طاقت بن چکا ہے ۔بڑے بڑے سرمایہ دار اسٹاکس اس شعبہ میں داخل ہو چکے ہیں ۔سولر مافیا کی ایک نئی چال یہ ہے کہ سوشل میڈیا اور اخباروں میں سولر پینلز پر ٹیکس اور قیمتیں بڑھنے کی جھوٹی سچی خبریں لگوا کر اور قیمت بڑھنے کا خوف دلا کر بلیک مارکیٹ کے زریعے منافع کمایا جارہا ہے ۔اور کوشش یہ کی جارہی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی پرانہ اسٹاک اچھے منافع سے بیچ دیا جاے ٔ ۔اگر ہم اب بھی کچھ دن جدید ٹیکنالوجی کی آمد تک مزید صبر کرلیں تو یہ مافیا بڑے کم ریٹ پر یہ پینلز بیچنے آمادہ ہو جائیں گے ۔سولر پینلز اور اس سے منسلک میٹریل پر چند سرمایہ داروں کی اجارہ داری نظر آتی ہے ۔وہ جب چاہتے ہیں ان کی قیمتیں کم اور زیادہ کرتے رہتے ہیں ۔مجھے خود پوری ادائیگی کے باوجود تقریبا” ڈیڑھ ماہ کا عرصہ انسٹالیشن کے لیے انتظار کرنا پڑا ۔اور پھر نیٹ میٹرنگ وہ طریقہ کار جس کے تحت صارفین اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی متعلقہ پاور ڈسڑی بیوشن کمپنیوں کر بیچ کر اپنا بل کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ سہولت حاصل کرنے کے لیے فائل کی تیاری اور منظوری کے لیے ان کے مقررہ وینڈرز کو فوری طور پر تقریبا” ایک لاکھ پچیس ہزار دینے پڑتے ہیں اور پھر ایک طویل انتظار اور ذہنی اذیت کے بعد یہ میٹر لگ پاتے ہیں ۔اس رقم میں سے وپڈا کو کیا جاتا ہے اور وینڈر کتنے پیسے ہڑپ کر جاتے ہیں یہ کسی کو معلوم نہیں ہوپاتا ۔ صارف تو یہی غنیمت سمجھتا ہے کہ اس کا گرین میٹر لگ گیا ہے ۔دراصل یہ پورا ایک مافیا ہے جو اپنی من مانیاں کر کے مختلف طریقوں سے سادہ لوح شہریوں کو بجلی کے بڑے بڑے بلوں سے ڈرا کر لوٹ رہا ہے ۔اور جو کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہوتا ۔انورٹر اور کیبلز کی کوالٹی میں گڑبڑ معمول بن چکی ہے ۔دکھایا کچھ اور لگایا کچھ جاتا ہے ۔صرف ارتھ کے لیے پینتس ہزار روپے لیے جاتے ہیں ۔حکومت نے خود ہی عوام کو سولر لگوانے کی ترغیب دلائی اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ پنجاب حکومت کی جانب سے مفت سولر پینلز کی تقسیم کے اشتہارت بھی دیکھنے میں آرہے ہیں ۔دوسری جانب سولر نیٹ میٹرنگ سسٹمز پر ٹیکس کی خبریں بھی گردش میں ہیں گو ان خبروں کی تردید بھی کی جاچکی ہے لیکن اس کے باوجود جو غریب شہری جو اپنا سب کچھ بیچ کر سولر لگوا چکے ہیں ان خبروں سے خوفزدہ ضرور ہیں ۔بنیادی بات یہ ہے کہ سولر سسٹم لگانے کے بعد بھی بجلی کی بچت کو شعار بنانا ہوگا کیونکہ بجلی کا ضیاع بھی اسراف ہی کے زمرے میں آتا ہے ۔ یہ خیال رہے کہ سولر سسٹم لگا کر بےفکر ہو کر بجلی کا استعمال آپ کو بڑا مالی سرپرائز بھی دے سکتا ہے ۔ارباب اختیار سولر سسٹم کی فروخت اور انسٹالیشن کی نگرانی کا کوئی نہ کوئی سسٹم ضرور بنائیں تاکہ ان سے متعلقہ آلات اور سامان ضرورت کی کوالٹی اور ریٹ پر کنٹرول قائم رہ سکے ۔سورج کی روشنی اللہ کی وہ نعمت ہے جو انسانی زندگی اور بقا کے ضروری ہے ۔اس کا فائدہ کرہ ارض پر موجود ہر بنی نوح انسان کے لیے ایسے ہی مفت ہے جیسے ہوا سانس لینے کے لیے ہوتی ہے ۔روشنی اور حرارت کسی سب سے بڑی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہے ۔ اس لیے اس سے حاصل کی گئی روشنی اور توانائی پر ٹیکس کے بارے میں سوچنا بھی مناسب نہیں ہو گا ۔ اور نیٹ میڑنگ کے ریٹ میں کمی کرنا بھی ان سے زیادتی ہو گا ۔کاش یہ بات سمجھ لی جاۓ کہ توانائی کا جو کام حکومتی ذمہ داری ہوتا ہے وہ ایک غریب آدمی اپنی کوشش اور وسائل سے بجلی پیدا کرکے ملک کی توانائی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔جس کے لیے اس نے اپنی جمع پونجی اور اپنی قیمتی اشیاء تک داؤ پر لگا دی ہیں ۔ میری سولر کمپنیوں کے ناخداوں اور دوکانداروں سے سے دست بستہ اپیل ہے کہ خدارا ! غریب کی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ اس کام کو ثواب اور نیکی سمجھ کر کریں تو یقینا” آپ ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.