نیب ترامیم کیس: سپریم کورٹ کی بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت
سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں پٹیشنر عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیے، وہ اس مقدمے میں ایک فریق ہیں ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں، یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئین سے متعلق معاملہ ہے، کسی کے ذاتی حقوق کا معاملہ نہیں، ایک بندہ جو وکیل بھی نہیں وہ ہمیں کیسے معاونت فراہم کر سکتا ہے؟ ہمارا آرڈر تھا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے سے دلائل دے سکتے ہیں، ہم پانچ منٹ کے لیے سماعت ملتوی کر کے اس پر مشاورت کر لیتے ہیں۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر سپریم کورٹ نے عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کے انتظامات کیے جائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بڑی عجیب صورتحال ہے کہ عمران خان جو اس مقدمے میں درخواست گزار تھے اور اب اپیل میں فریق ہیں ان کی یہاں پر نمائندگی نہیں، بانی تحریک انصاف اگر دلائل دینا چاہیں تو ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں، ان کے ویڈیو لنک کے زریعے دلائل دینے کا بندوبست کیا جائے۔
چیف جسٹس نے عدالتی عملے سے استفسار کیا کہ کتنے وقت تک ویڈیو لنک کا بندوبست ہو جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کر دی۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کو پرسوں عمران خان کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔
بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میری رائے میں اس معاملے میں لارجر بینچ بننا چاہیے، ہائی کورٹس میں نیب قانون کے خلاف آئین ہونے سے متعلق درخواستیں زیر التوا ہیں، اس معاملے میں ہم ایک مقدمے کو ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں اور وہ ہے بینظیر بھٹو کیس، بینظیر بھٹو مقدمے کی رو سے وفاقی حکومت کی اپیل ناقابل سماعت ہے، عدالت متاثرہ فریق کی تشریح کر چکی ہے کہ حکومت متاثرہ فریق نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت کوئی درخواست قابل ہی نہیں ہو سکتی جب کوئی درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہو۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ میں اس آبزرویشن پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، دوران سماعت بینچ کی تشکیل پر پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت قائم نہ ہونے کا اعتراض کیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا کس بنیاد پر کی تھی یہ آئینی تشریح کا کیس تو نہیں تھا، مخدوم علی خان نے بتایا کہ درخواستوں میں ترامیم کو آئین سے متصادم ہونے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک مسئلہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کا بھی تھا، سپریم کورٹ کا 11 رکنی بینچ ماضی میں ایسی درخواستوں پر فیصلہ دے چکا ہے، بینظیر بھٹو کیس کا فیصلہ اس موجودہ بینچ پر بھی لاگو ہوگا، الیکشن کیس میں بھی یہی اعتراض کیا گیا تھا، میری نظر میں بانی پی ٹی آئی کی درخواستیں ناقابل سماعت نہیں تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر الیکشن کی تاخیر چاہنے والے ہر ہائی کورٹ سے رجوع کریں اور انتخابات چاہنے والے سپریم کورٹ سے تو کیا ہوگا؟ اگر سپریم کورٹ کہے ہائی کورٹس کو فیصلہ کرنے دیں تو تاخیر ویسے ہی ہوگئی۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے مزید کہا کہ جس کے خلاف بھی فیصلہ ہو اسے اپیل کا حق ہوتا ہے،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کسٹمز ایکٹ کیس میں عدالت قرار دے چکی کہ کوئی محکمہ متاثرہ فریق نہیں ہوسکتا۔
اس موقع پر مخدوم علی خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کسٹمز کے کیس میں اپیل ایک افسر نے دائر کی تھی، کیا وفاق کو کوئی حق نہیں کہ اپنے بنائے ہوئے قانون کا دفاع کر سکے؟ نیب ترامیم سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا آپ اپنے بنیادی نکات ہمیں لکھوا دیں، بنیادی نکات عدالتی حکم کے ذریعے عمران تک پہنچ جائیں گے تاکہ وہ جواب دے سکیں، اس وقت بانی پی ٹی آئی آپ کے دلائل نہیں سن رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں قانونی شقوں کا معاملہ ہے، اگر ہم خود کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔
بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل نے جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ پڑھنا شروع کردیا۔
اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا نیب ترامیم میں آئینی شق کی تشریح کا سوال تھا؟ وکیل وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ نیب ترامیم کو آئین کے تحت جانچنے کا سوال تھا۔
بعد ازاں مخدوم علی خان نے کہا کہ مرکزی درخواست گزار نے خود جو کہا اس کے الفاظ دیکھیں،پی ٹی آئی دور میں ترامیم دو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی گئیں، بعد میں اتحادی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترامیم کو برقرار رکھا، اس درخواست کا ڈرافت کس نے تیار کیا تھا، 2021میں پی ٹی آئی میں کی گئی ترامیم کو خلاف آئین قرار دیا گیا،
چیف جسٹس پاکستان نے ریماکرس دیے کہ کیا یہ قابل ذکر دلیل ہو سکتی ہے؟
مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نے جو ترامیم کیں ان کا اطلاق 1985 سے کیا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے دریافت کیا کہ کیا ہم خواجہ حارث کو دلائل دینے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث کو عدالتی معاون مقرر کیا جاسکتا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ عدالتی معاون غیر جانبدار ہوتا ہے، وہ وکیل جو کسی فریق کا وکیل رہ چکا ہو اسے عدالتی معاون مقرر نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جب آرڈیننس آئے تو اس وقت کی حکومت اور عمران خان نے ان ترامیم کو سپورٹ کیا، اس وقت کہا گیا کہ نیب کی وجہ سے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، معیشت متاثر ہو رہی ہے۔
مخدوم علی خان نے جسٹس اطہر من اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی یادداشت بہت شاندار ہے، پی ٹی آئی حکومت کے وزیر قانون اور وزیر خزانہ نیب کیخلاف بیانات دیتے رہے تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہاں ہمارے پاس 57 ہزار کیس زیر التو ہیں، ہم اس کیس پر وقت کیوں ضائع کریں، اس کیس میں بنیادی درخواستگزار کی نیک نیتی ثابت نہیں تھی، جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا تھا کہ کیس لانے والوں نے پارلیمنٹ میں کردار کیوں ادا نہیں کیا؟نیب ترامیم کا معاملہ ہائی کورٹ میں تھا ہم دیگر سائلین کا وقت اس کیس کو کیوں دیں؟ پارلیمنٹ کی نیب قانون میں کی گئی ترامیم پی ٹی آئی دور کے آرڈیننس اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں، پارلیمنٹ کی ترامیم کا مقصد ان افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا جن پر نیب کے لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔
تبصرے بند ہیں.