تضادات سے چھٹکارہ پانے کا راستہ
تحریر: عرفان حفیظ ملک
میں کافی دنوں سے ایک مخمصے میں مبتلا ہوں اور میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر کار ہمارا معاشرہ کس خوفناک سمت کی جانب گامزن ہے اور ہم بطور قوم مجموعی طور پر کس گہری کھائی کی جانب رواں دواں ہیں اور کیا ہمارے اہل اقتدار کو ان معاملات کی سنگینی اور اس کے حقیقی اسباب کا ادراک ہے بھی کہ نہیں۔۔؟
قوم ہمیشہ اپنے رہنمائوں کی لائن اختیار کرتی ہے ،تاہم جب قومی یکجہتی ہی ناپید ہو تو پھر یہ معاملہ سنگین ہوجایا کرتا ہے ۔رہنمائوں کے طور طریقے بھی اگر حقیقی منزل کی بجائے وقتی فائدوں تک محدود ہوکر رہ جائیں تو پھر قوم کے پائوں بھی ڈگمگا جاتے ہیں ۔
اس طرح پھر ساری قوم ہی عمومی طور تضادات کا شکار ہوجاتی ہے اور ایسا ہی کچھ اس قوم کے ساتھ ہو رہا ہے اور اب ہمارے معاشرے میں کوئی بھی بات حتمی یا یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی، چاہیے وہ کوئی کرپشن یا سیاسی کیس ہوں یا عدالتوں میں مقدمات کی سماعت ہو، الیکشن کا انعقاد ہو، ملکی فیصلے ہوں، اب تو ہر چیز ڈرامہ اور انجنیئرڈ محسوس ہوتی ہے۔ ایک طرف تو کئی کئی سال کسی کیس کی تاریخ نہیں لگتی اور دوسری طرف ایک ایک دن میں ہول سیل میں مقدمات کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔؟ اور تو اور عدالت اب خود چل کر جیل پہنچ جاتی ہے تاکہ کسی خاص ملزم کے مقدمے کی سماعت کی جاسکے۔۔؟
کچھ ایسا ہی حال ہماری سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے بیانات کا بھی ہے، وہ کہتے کچھ ہیں، کرتے کچھ اور ہیں۔پھر آخر میں ہوتا کچھ اور ہی ہے۔ میں کسی ایک سیاسی لیڈر کا نام نہیں لینا چاہتا کیونکہ اس خاصیت میں سب کے سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے کبھی سیاست میں جھوٹ نہیں بولا اور حقیقت میں اس کی ساری زندگی ہی سیاسی جھوٹوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ ہم اقتدار میں آکر فلاں شخص کا پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت باہر نکالیں گے اور اسے سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بدل دینا اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر ملک کو مزید بربادی کی جانب دھکیلنے کا عزم دہراتے ہیں۔۔؟ ایک کہتا ہے کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر اپنی قوم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ اپنی قوم کے ساتھ سچ بولا کروں گا اور حقیقت دیکھیں تو انہوں نے جو بات بھی کہی۔ہمیشہ جھوٹ ہی کہی اپنی ہر کہی ہوئی بات سے یو ٹرن لیا۔۔۔ اور پھر کہا کہ میں قوم کی تمام لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر اپنی قوم پر خرچ کروں گا تو حقیقت میں دیکھیں تو سارے معاملات بلکل مختلف نکلتے ہیں اور وہی لیڈر الٹا اپنے سیاسی کولیگ کو بیل آوٹ کرنے کےلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔۔؟ لمبی داستان ہے حضور جس کو بھی دیکھیں، آپ کو اس کے قول اور فعل میں کھلا تضاد ضرور نظر آے گا اور کوئی بھی اس ملک کے ساتھ مخلص نظر نہیں آئے گا، سب کے سب اپنا اپنا مال پانی سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔سیاست سے ہٹ کر اب ذرا قومی کرکٹ ٹیم کو دیکھیں تو ایک پل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ مظبوط اور متوازن ٹیم کوئی اور نہیں ہے اور پھر وقت آنے پر وہی ٹیم افغانستان یا سری لنکن جیسی ہلکی ٹیموں سے بھی نہایت گندے طریقے سے ہار کر پوری قوم کو مایوسیوں میں دھکیل دیتی ہے۔۔۔ میرا تو اس عمر میں اکثر سیاستدانوں، ڈاکٹروں، وکیلوں، عدالتی نظام، کرکٹ کے کھلاڑیوں، سرکاری محکموں اور ان کے ملازمین سے اعتبار دن بدن اٹھتا جا رہا ہے اور تو اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کا لڑکا بھی اب ایک مکمل مرد نظر نہیں آتا اور لڑکیوں نے اپنا نسوانی حسن بھی کھو دیا ہے اور بدقسمتی سے ہماری نئی نسل کے خدوخال ہی تبدیل ہو چکے ہیں۔۔؟ اب بندہ کیا تصور کرے کہ ہمارے معاشرے کا مسقبل کیا ہوگا؟ اور کیا ہماری قوم اپنی خاندانی زنجیر کا تسلسل آنے والے وقتوں میں برقرار رکھ پائے گی یا پھر ہماری قوم کے ساتھ کوئی بہت بڑا ہاتھ کر دیا گیا ہے اور بغیر گولی چلائے اور کوئی بم گرائے بغیر پاکستانی قوم کی نسل کشی یا خاندانی منصوبہ بندی کر دی گئی ہے، کسی خاص ساینٹفک طریقے اور یا پھر کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کر کے۔۔اس ضمن میں اب ان معاشرتی خرابیوں کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو چکے ہیں اور اب اس دور میں ہمیں اپنے ارد گرد کافی بے اولاد جوڑے دیکھنے کو ملتے ہیں اور دیگر بیماریوں و پیچیدہ امراض کے علاوہ کینسر جیسے موذی مرض میں بھی کافی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ ہم کس پر اعتماد کریں اور اپنی آنے والی نسلوں کا مسقبل کیسے محفوظ اور روشن بنانے کا بندوبست کریں۔۔؟ کیونکہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا نظر آتا ہے اور ہر کوئی ہمارے پیارے وطن پاکستان کو تباہی کی جانب دھکیلنے میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔۔۔؟ان حالات میں وطن کے لئے دعا ہی کرسکتاہوں !اے پاک پروردگار، میرے ملک اور اس میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما اور اس کے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے اسباب پیدا کر!،پاکستان کے عوام کو غیر یقینی حالات سے نجات دلانے کی خاطر رہنمائوں کو ہی اپنا کردار نبھانا ہوگا ،صرف دعائوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوا کرتے عمل ہی سے جنت اور جہنم کے راستے کھلتے ہیں ۔زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اس لئے یہاں شاعر کی اس خواہش کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں کہ
اک زندگی عمل کے لئے بھی نصیب ہو
یہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی
اس لئے زندگی کی درست سمت کا تعین کرنا ناگزیر ہے ،باالخصوص نئی نسل کو گمراہ کرنے والوں سے چھٹکارہ دلائے بغیر کوئی قوم بھی ترقی نہیں کرسکتی ۔رہنمائوں کے یوٹرن لینے سے گریز پر ہی قوم کے تضادات ختم ہونگے اور معاشرتی خرابیاں بھی دم توڑ جائیں گی جس سے تعمیر وترقی کے دور کا آغاز ہوسکے گا ۔