مبارکہ حیدر غفرلہا
تحریر: ڈاکٹر رضیہ حامد(بھوپال)
حیدرقریشی کے زندگی کو سنوارنے اور خوشگوار بنانے والی ہستی مبارکہ تھیں۔ ان کے مبارک قدم حیدرقریشی کو راہِ مستقیم پر گامزن ہونے میں معاون رہے۔ ان دونوں کی زندگی میں اتوار کے دن کی بڑی اہمیت ہے۔ مبارکہ کی حیدرقریشی سے جب شادی ہوئی وہ چودہ برس کی الّہڑ دوشیزہ تھیں۔ ان کا نکاح اتوار کو ہوا۔ دونوں کا یومِ پیدائش اتوار ہے اور اسی پر اتوار کی رحمتیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ پہلی بیٹی رضوانہ اور پہلا بیٹا شعیب بھی اتوار کو ان کی زندگی میں خوشبو بکھیرنے دنیائے آب و گل میں تشریف لائے۔
مبارکہ بڑی فراخ دل اور سودوزیاں سے بے نیاز سخی تھیں، عموماً لڑکیوں کو اپنے زیور سے بہت لگاؤ ہوتا ہے، اس کو بہت سنبھال کر رکھتی ہیں،لیکن مبارکہ شروع ہی سے حیدرقریشی کی ادبی و صحافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے اپنے زیورات کی قربانی دیتی رہیں۔ وہ بہت صاف دل اور صاف گو خاتون تھیں، ہمدرد اور رقیق القلب بھی۔ کسی کی لڑکی کی رخصتی ہو، گھر والوں سے زیادہ مبارکہ آنسو بہاتی نظر آتیں۔اکثر لوگوں نے حیدرقریشی کی مخالفت و مخاصمت میں مبارکہ کو ورغلانے کی تدبیریں کیں، طرح طرح کی باتیں کہیں، دلائل دیئے مگر شاباش ہے کہ انھوں نے دل کے آئینہ پر بال بھی نہیں آنے دیا، ان کو اپنے شوہر پر اندھا بھروسہ اور اپنی محبت پر یقین تھا۔ مبارکہ حیدرقریشی کی بے تکلف دوست، پُرخلوص بیوی تھیں۔
حیدرقریشی نے مبارکہ کے لیے لکھا ہے:
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن میں اس کے جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا
مبارکہ بہت متواضع خاتون تھیں، میرے بیٹے سید محمد عامر سیمینس جرمنی کی کمپنی میں ملازم و دوبئی میں مقیم تھے، جب کبھی ٹور پر جرمنی جاتے حیدرقریشی کے لیے میری کوئی کتاب ضرور بطور تحفہ لے جاتے۔ مبارکہ ان کی میزبانی میں مصروف اپنے ہاتھ سے طرح طرح کی ڈشیز تیار کرتیں اور عامر کی ضیافت خوش دلی سے انجام دیتی تھیں۔ ہم لوگ نادیدہ دوست کہے جاسکتے ہیں، وہ میری بہن کی طرح میرے بیٹے کا استقبال کرتیں اور ان کا خیال رکھتی تھیں۔ اللّٰھم اغفرلہا
سوئِ قسمت مبارکہ کے گردے خراب ہوگئے اور ان کو ڈائلیسس کی تکلیف سے باربار گزرنا پڑتا تھا جو وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتی تھیں۔ حیدرقریشی اور بچوں کو اپنی تکلیف کی شدت کے احساس سے بچائے رکھنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتی تھیں۔
گردے کی خرابی سے موت کی آہٹ سنائی دینے لگتی ہے۔ ہر شخص ڈرا سہما کہ کب سناؤنی آجائے۔ ۲۷؍مئی ۲۰۱۹ء کو مبارکہ نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا۔ گھر کے سب افراد نے اپنے غم دوسرے سے چھپائے رکھے، بچے، حیدرقریشی کی دل جوئی کرتے تھے کہ ان کا دل بہل جائے، غم ہلکا ہو۔ مبارکہ کی زندگی میں ان کے بچوں نے ایک کتاب ’ہماری امی مبارکہ‘ ترتیب دی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ایک کتاب اور تیار کرنے کے لیے آپس میں مشورہ ہوا اور ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ تیار ہوئی۔ میں نے اس پر تبصرہ کیا تھا، اس کا کچھ حصّہ یہاں شامل کررہی ہوں۔
کتاب کا پیش لفظ حیدرقریشی نے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ ان کی شادی کم عمر ی میں ہوئی تھی یعنی ۱۹ سال کے حیدرقریشی اور ۱۴ برس کی مبارکہ۔ زندگی میں ایک موڑ آیا، کچھ لوگوں نے رشتہ میں رخنہ ڈالنے اور توڑنے کی سازشیں بھی کیں۔ مبارکہ مستقل مزاجی سے نہایت سمجھ داری کے ساتھ زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتی رہیں۔
اس کتاب میںحیدرقریشی کے بچوں نے بھی الگ الگ اپنے تاثرات بیان کیے ہیں اور ان کے احباب اور رشتہ داروں نے بھی اپنے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ حیرت ہے کہ مبارکہ کتنی معروف تھیں کہ حیدرقریشی کے کئی ملنے والوں نے بھی مبارکہ پر مضمون لکھے ہیں۔ حالانکہ وہ ان سے ملے نہیں۔ غالباً کسی سے فون پر بات ہوئی ہو تو خیر ورنہ مبارکہ مستقل پردہ کے پیچھے رہیں۔ ان میں ہندوستان اور پاکستان کے شاہد ماہلی، پروفیسر عبدالرب استاد ،گلزار،ترنم ریاض، قمرالنسائ(ڈاکٹر رمیشا قمر)،،حمیرا حیات، زارا حیدر،نازیہ خلیل عباسی ، ڈاکٹرراحیلہ خورشید، فرحت نواز،ڈاکٹر افسرا راہین،ڈاکٹر عامر سہیل،احمد حسین مجاہد،خالد یزدانی،حمیرا اطہر،نسیم انجم،،روس کی ڈاکٹر لدمیلا،کینیڈا کی ڈاکٹر شہناز خانم عابدی،وجرمنی کی عظمیٰ احمد، ملائیشیا کی کنول رعنا نوشی، انگلینڈ کی کنول تبسم،جرمنی سے اسحاق ساجد،،غیرہ شامل ہیں۔ بہت لوگوں کے تاثراتی پیغام بھی مختلف ملکوں سے موصول ہوئے جو اس کتاب اور ’’مبارکہ محل‘‘ میں شامل ہیں۔’’حیات مبارکہ حیدر‘‘ کے مطالعہ کے بعد جہاں حیدرقریشی اور ان کی اہلیہ کی ادب کی دنیا میں مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ان کی اپنے بچوں کی تربیت کی صفات و کمالات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔
مبارکہ پر لکھی یہ کتاب بہت اچھی ہے، اس کو ایک مرتبہ پڑھ کر تسلی نہیں ہوتی، بار بار پڑھنے کے لیے ذہن و دل راغب ہوتا ہے۔ بیساختہ حیدرقریشی کی سلامتی کی دعا اور مبارکہ کے لیے مغفرت کی دعا زبان پر آجاتی ہے۔ اللہ قبول کرے۔آمین