جمہوریت کے لیے نئی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت

29

اداریہ

پاکستان کے حالیہ الیکشن کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں میں اتحاد کی صورت پیدا ہورہی ہے
ایک طرف حکومت سازی کے حوالے سے بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے
مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں نے شراکت اقتدار کا معاہدہ کرکے معاملات آگے بڑھائے ہیں
جبکہ دوسری طرف مجوزہ اپوزیشن کی بھی صورت بن رہی ہے ۔حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی خاطر اتحاد اور الائنس بن رہے ہیں
اور ان کا مرکزی نکتہ احتجاج ہی ہے ۔معیشت کو بحرانوں سے نکالنے اور عوام کو فوری ریلیف دینے کی خاطر حکومت کے سامنے کی طرح کے چیلنجز درپیش ہوں گے ۔
نئی حکومت کو یکسوئی سے معاملات سلجھانے کے لئے پرامن ماحول کی ضرورت ہوگی
تاہم اس کے برعکس ادھرگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) ، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی نے
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ سید صدرالدین شاہ راشدی سے پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ اور جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کرتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کرنے کا اعلان کیا

۔جی ڈی اے کے سیکریٹری اطلاعات عبدالرحیم نے بتایا کہ ملاقات میں موجودہ سیاسی صورتحال اور مبینہ دھاندلی پر باہمی تعاون کے حوالے سے غور کیا گیا
سید صدر الدین شاھ راشدی نے دیگر رہنماؤں کو جی ڈی اے کے 23 فروری کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملاقات میں اس بات پر غور ہوا کہ اپوزیشن کی سخت گیر تحریک کی وجہ سے حکومت اور الیکشن کمیشن بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ
سندھ اسمبلی کا اجلاس برائے حلف برداری کا اعلان اچانک کردیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ
اس صورت میں عوام اور تمام جماعتوں کے کارکنان اس دن سندھ بھر میں سخت احتجاج کریں گے
جس پر اجلاس میں شریک رہنماؤں نے اتفاق کیا۔سردار عبدالرحیم نے مزید بتایا
کہ 23 فروری کے اجلاس میں اس حوالے سے غور کے بعد حتمی اعلان کیا جائے گا۔
ان حالات میں اب نئی حکومت کے لئے تعمیری اقدامات کو انجام دینا مشکل ہو جائے گا،
ملک میں سیاسی استحکام لائے بغیر معاشی استحکام نہیں لایا جاسکے گا ۔
یوں تو ملکی تاریخ کے ہر الیکشن میں دھاندلی کا شور برپا ہوتا رہا ہے اور
اس طرح کی سرگرمی سے 1977ء کے الیکشن نتائج پر ہونے والے احتجاج سے جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی تھی
گیارہ سالہ مارشل لاء کے مابعد اثرات سے آج بھی معاشرتی و معاشی بگاڑ نظر آتا ہے ۔
ملک میں حقیقی جمہوریت کے احیا کی خاطر جمہوریت پسندوں کو بڑی قربانیاں دینا پڑیں ۔
ان قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے کچھ ناعاقبت اندیش ضد اور ہٹ دھرمی کے ہتھیار سے
جمہوریت پر نیا وار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انکی سرگرمیوں اور احتجاجی کارروائیوں کا محور
ملک میں جمہوری نظام کو پٹٹری سے اتارنا ہے
اسی تناظر میں کچھ دن پہلے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی گئی
الیکشن کالعدم قرار دینے کا مقصد ہی جمہوری نظام سے انحراف ہے
اس اصول کے تحت رٹ دائر کرنے والا درخواست گزار خود تو غائب ہوگیا
مگر ان کی درخواست کی پیروی کے لئے تحریک انصاف عدالت میں کود پڑی
جس کی حوصلہ شکنی کی گئی درخواست گزار کو بھی جرمانہ کیا گیا۔
جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے حوالے سے سرگرم رہنے والوں کا ایک مائنڈ سیٹ ہے
اور عوام اب جمہوریت کے خلاف کسی طرح کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔
ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے تمام محب وطن جماعتوں کو اب
ایک صفحے پر آکر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ملک کسی طرح کے بھی احتجاج کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔
پاکستان کے ازلی دشمنوں کے پروپگنڈے سے بھی یہی لگتا ہے کہ
وہ ملک میں انتشار اور افراتفری کی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں ۔
ان حالات میں اب گوناں گوں ملکی مسائل کے حل کی خاطر حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے
ابھی تک کوئی جماعت بھی اپنے اکثریت کے کر پارلیمنٹ میں اپنی حکومت نہیں بناسکی
قوی امکان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا ظاہر کیا گیا ہے
دیگر دعویدار جماعتیں اگر اپنے دعوے میں سچی ہیں تو پھر وہ پارلیمنٹ میں آکر اپنی اکثریت ثابت کرکے حکومت بنائیں
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے “حکومت سازی کے عمل کا ہی بائیکاٹ کردینا
اور احتجاج کی راہ اختیار کرنا کوئی جمہوری عمل نہیں ۔
احتجاج بھی کرنا ہے تو اس کے لیے بہترین فورم پارلیمنٹ ہی ہے ۔
یہی جمہوریت کا حسن اور وقت کا تقاضہ ہے ۔

23/02/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-17-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.