بیرہ سُم نہ اجازت ء نُمے — عورت، نفرت اور غیرت کے بیچ سچ کی آخری آواز

ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

18

بلوچستان کے بنجر پہاڑ ایک بار پھر سرخ ہوئے ہیں—لیکن یہ سرخی کسی جنگ کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک نفرت کی سزا ہے۔ ایک مرد اور عورت نے اپنی مرضی سے نکاح کیا۔ شریعت کے مطابق، قانون کے مطابق۔ نہ فرار، نہ فریب۔ صرف ایک فیصلہ کہ اپنی زندگی کا اختیار خود رکھنا ہے۔ مگر اُن کے اس قدم نے قبائلی غیرت کو ایسا تڑپایا کہ پنچایتیں لگیں، فیصلے صادر ہوئے، اور آخرکار موت کا پروانہ جاری کر دیا گیا۔

مرد کو رسیوں میں باندھ کر لایا گیا، جیسے وہ کوئی مجرم ہو۔ اور عورت وہ برقع اوڑھے، چادر سنبھالے، ہاتھ میں قرآن لیے—گاڑی سے اُتری۔ اُس کے انداز میں نہ خوف تھا، نہ رحم کی التجا۔ صرف وقار تھا۔ وہ کتال گاہ میں ایسے اُتری جیسے کوئی فاتح ہو۔ اُس کی آنکھوں میں موت کا عکس نہیں، ایک آخری فیصلہ تھا۔ اور پھر اُس کی زبان سے وہ جملہ نکلا جو سماج کے منہ پر تھپڑ بن کر لگا:
بیرہ سُم نہ اجازت ء نُمے
(صرف گولی مارنے کی اجازت ہے تمہیں)

یہ جملہ کسی جذبے کا اظہار نہیں، یہ ایک انتباہ تھا۔ یہ اعلان تھا کہ اب عورت کسی کی جاگیر نہیں، نہ کسی رسم کی قیدی ہے، نہ کسی مرد کی عزت کی دیوار۔ وہ اپنی جان کی قیمت پر بھی یہ پیغام دے گئی کہ مرضی پر قدغن ظلم ہے۔

اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اُس عورت کے ساتھ اُس مرد کو بھی قتل کیا گیا۔ جو نکاح کے ذریعے اُس کا ہم سفر بنا، اُس کی زندگی کا ساتھی، اُسے تحفظ دینے والا۔ مگر قانون کے باوجود، شریعت کی روشنی کے باوجود، اُن دونوں کی جان لے لی گئی۔ نہ عدالت، نہ دلیل، صرف انتقام، صرف نفرت۔

حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے، تو وقتی بیانات اور جزباتی نوٹس کی بجائے عملی اقدامات کرے۔ ایسے قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔ پوری قوم کے سامنے اُنہیں سزا دی جائے، تاکہ کوئی اور “غیرت” کے نام پر کسی بے گناہ کی جان لینے کی جرأت نہ کرے۔ اس ملک کو جذباتی فتووں کی نہیں، اصولی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ایسے سفاک واقعات کے مجرموں کو سرعام لٹکایا جائے، اُنہیں نشانِ عبرت بنایا جائے۔

یہ وقت ہے کہ ریاست صرف بیانات سے نہیں، عمل سے ثابت کرے کہ یہاں قانون ہے، آئین ہے، انصاف ہے۔

یہ وقت ہے کہ “بیرہ سُم نہ اجازت ء نُمے” جیسے جملے فخر نہ ہوں، تاریخ کی چیخ نہ بنیں۔ کیونکہ اگر حکومت نے اب بھی چپ اختیار کی، تو یہ خون پھر بہتا رہے گا، اور ہر بار غیرت کے نام پر۔

یہ عورت ایک نظریہ نہیں، صرف انسان تھی۔ جس نے جینے کی آرزو کی، مگر نفرت نے اُسے جینے نہ دیا۔ اس نفرت کو دفن کرنا ہے، اور اس کے لیے صرف ایک کام کافی ہے:
مجرموں کو سرعام لٹکا دو — تاکہ پھر کوئی نہ کہہ سکے:

بیرہ سُم نہ اجازت ء نُمے
یعنی
میں صرف مارے جانے کی اجازت دیتی ہوں — جینے کی نہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.