لاس اینجلس میں لگی آگ نے تباہی مچا دی ہر طرف آگ ہی آگ دکھائی دیتی ہے ۔جی ہاں ! ہمارے شہر کراچی جتنا بڑا اور کم از کم پانچ سو مربع میل پھیلا بڑا امریکی شہر لاس اینجلس جل رہا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کا حامل ملک اس آگ کو بجھنانے میں تقریبا” ناکام نظر آتا ہے ۔ گو امریکا میں زیادہ رقبے کا مطلب زیادہ آبادی نہیں ہے پورا امریکہ درختوں کے جنگل کی مانند ہوتا ہے ۔کہتے ہیں کہ قدرتی آفات جہاں بھی اور جس صورت میں بھی آتی ہیں انسانیت کے لیے تباہی اور بربادی کا پیغام لے کر آتی ہیں ۔دنیا کی سپر پاور امریکہ کا شہر لاس اینجلس پچھلے کئی دنوں سے آگ کی لپیٹ میں ہے اور یہ آگ سینکڑوں اربوں ڈالرز کا نقصان کر چکی ہے ایک اطلاع کے مطابق دس ہزار سے زیادہ گھر جل کر تباہ ہو چکے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے باہر کسی محفوظ مقام پت منتقل ہو چکے ہیں اندازا” دس سے بارہ ہزار لوگ اس آگ کی باعث اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیں اگر امریکہ جیسا بڑا اور امیر ملک بہت ساری ایڈوانس ٹیکنالوجی اور ریسورسیز کی مدد سے بھی پچھلے کئی دن سے اس آگ پر قابو نہیں پا سکا تو باقی دنیا تو اس معاملے میں ابھی کافی پیچھے ہے۔اس آگ سے ثابت ہوا کہ دنیا کا کوئی پانی کا نظام اس جیسی آگ پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور نہ ہی ہے کوئی ایسی ٹیکنالوجی ہی ہے جو اس آگ کو ٹھنڈا کر سکے ۔بظاہر یہ ٹیکنالوجی کی شکست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنی بڑی آگ سے جانی نقصان کا کم ہونا اسی ٹیکنالوجی کی بدولت ہوا ہے ورنہ آگ کی شدت نے بڑا جانی نقصان کرنا تھا ۔خدا نخواستہ کسی اور جگہ اتنے بڑے رقبے پر آگ لگ جاتی تو ہزاروں لاکھوں افراد نے جل کر راکھ ہو جانا تھا ۔ لاس اینجلس کا علاقہ پیسفک پیلیسیڈ تو تصاویر میں ہیرو شیما پر ایٹم بم کے حملے کے بعد کا منظر پیش کر رہا ہے جو نہایت افسوسناک اور دردناک ہے ۔ہمیں بطور پاکستانی اور مسلمان امریکی انسانی جانوں کی ہلاکت پر شدید دکھ ہے کیونکہ یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے اور انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ہمارے بےشمار مسلمان اور پاکستانی بھی وہاں رہائش پذیر ہیں اور وہاں کے شہری اور ہمارے بھائی ہیں ۔اس واقعہ کو کسی مذہب یا قوم سے جوڑنا قطعی درست نہیں ہے ۔یہ تو ان قدرتی آفات میں سے ایک ہے جو کبھی اور کسی پر اور کہیں بھی نازل ہو سکتی ہے ۔پاکستا ن بھی بارہا سیلاب ،زلزلوں جیسی بڑی قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے۔ امریکا جیسی سپر پاور کی اس معاملہ میں بےبسی کو دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی شکست سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے ۔بےشک قدرت کے سامنے سب کمزور اور بےبس ہوتے ہیں قدرت کے سامنے بڑی سے بڑی ٹیکنالوجی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔سپر پاور صرف رب کریم کی ذات ہے جس کے سامنے ہم سب بے بس ہیں ۔اطلاعات کے مطابق لاس اینجلس میں حالیہ جنگلاتی آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق، اس آفت سے تقریباً 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جو امریکی تاریخ کی مہنگی ترین آفات میں سے ایک ہے اس آگ کے نتیجے میں تقریباً 10 ہزار مکانات اور عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، جبکہ 4 سے 5 ہزار مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ مزید برآں، ہلاکتوں کی تعداد 10 ہزار تک پہنچ گئی ہے، اور تقریباً 1 لاکھ 80 ہزار افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔، جبکہ مزید دو لاکھ شہریوں کے علاقہ چھوڑنے کا خدشہ ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں پیسیفک پیلیسیڈز اور پیساڈینا کاؤنٹی شامل ہیں، جہاں مجموعی طور پر 34 ہزار ایکڑ رقبہ جل کر خاک ہو چکا ہے۔ حکام نے آگ پر قابو پانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں، تاحال آگ نہیں بجھائی جاسکی جانی و مالی نقصان میں مزید اضافے کے خدشات ہین ۔تاہم مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔گو نقصانات کا تعین کرنا ابھی بڑا مشکل ہو گا لیکن صدر جو بائیڈن نے وفاقی حکومت کی جانب سے امدادی کاموں کے لیے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔جس میں ملبے کو ٹھکانے لگانے، عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنے اور آفت سے لڑنے والے کارکنوں کو آئندہ 180 دن میں سو فیصد معاوضے کی ادائیگی شامل ہے۔بےشک حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام اپنے امریکی بھائیوں کے اس تکلیف دہ لمحات میں ہمددری کے جذبات رکھتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو ایسے حادثات اور آفات سے محفوظ رکھے ۔
اس آگ کے بارے میں پوری دنیا میں ایک بحث چھڑ چکی ہے کہ یہ آگ کیسے شروع ہوئی ؟ لاس اینجلس میں آگ لگنے کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ علاقہ اکثر جنگلاتی آگ کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔بہر حال اس آگ کےکچھ اور بھی عوامل ہو سکتے ہیں ۔جن میں قدرتی عوامل ،انسانی عوامل ،ماحولیاتی عوامل ،بجلی کی لائنز کے عوامل بھی نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ آج یورپین سائنسدانوں نے گلوبل وارمنگ کے حوالے سے بتایا کے اس دنیا کا درجہ حرارت پچھلے سال مزید 6۔1 سینٹی گریڈ بڑھا جو انڈسٹریل زمانے کے بعد جب سے ہم نے اس زمین کا درجہ حرارت ریکارڈ کرنا شروع کیا ہے سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے اور 2024 اس حوالے سے سب سے زیادہ گرم سال تھا۔ اس کا مطلب ہے زمین پر اوریج درجہ حرارت مزید بڑھ رہا ہے اور ایسی قدرتی آفات اب آئے روز کا معمول بن رہی ہیں اس دنیا پر گلوبل وارمنگ کیسے تباہی لے کر آ رہی ہے اس زمین پر قدرتی آفات کی شکل میں۔ یہ لاس اینجلس کی آگ اس کا ایک زندہ ثبوت ہے ہمارے سامنے۔ ایک ہنستے بستے شہر کے کچھ علاقے کیسے چند گھنٹوں میں اس آگ نے راکھ کا ڈھیر بنا دئیے ہیں۔ وہ لوگ جو آج بھی گلوبل وارمنگ کو کوئی مذاق سمجھتے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ایسے واقعات دیکھنے کے بعد اس دنیا پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔اگر ہم قدرتی عوامل پر غور ریں تو شدید گرمی اور کشک موسم آگ کے خطرے کو بڑھا تے ہیں ۔تیز ہوائیں جیسے “سانتا اینا ہوائیں” آگ کو تیزی سے پھیلنے میں مدد دیتی ہیں ۔بجلی کی گرج چمک سے بھی آگ بڑھک سکتی ہے ۔ دوسری جانب انسانی عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن میں سگریٹ کے غیر مناسب اور غیر محتاط استعمال اور جلتے ہوۓ سگریٹ کے پھینکنے سے بھی آگ لگنے کی خدشات ہوتے ہیں ۔غیر قانونی آگ جلانا مثلا” بغیر احتیاطی تدابیر کے کیمپ فائر یا آتش بازی بھی وجہ بن سکتی ہے ۔گلوبل وارمنگ کے باعث خشک سالی اور گرمی کا ذکر پہلے ہی کیا جاچکا ہے جو ایک بنیادی وجہ قرار دی جاسکتی ہے ۔بارش کی کمی کی باعث زمیں کا خشک ہونا بھی آگ لگنے کا سبب بن سکتا ہے ۔اسی طرح پرانی یا خراب بجلی کی لائنز یا آلات کی شارٹ سرکٹ سے آگ لگنے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔بہر حال لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ ایک سنگین مسئلہ ہوتا ہے اور لوگوں کو محتاط کرنے کےلیے حکام اکثر پیشگی وارننگ جاری کرتے رہتے ہیں تاکہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اور یہی وجہ ہے کہ جانی نقصان بہت کم ہوا ہے ۔یقینا” جلد اس آگ پر قابو پاکر اسکی وجوہات تلاش کر لی جائیں گیں وجوہات جو بھی ہوں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک قدرتی آفت کے سوا ۓ شاید اور کچھ بھی نہیں ہے ۔قدرتی آفات کو مکافات عمل یا سزاکے طور پر دیکھنا ایک مذہبی یا فلسفیانہ سوچ اور نقطہ نظر تو ہو سکتا ہے ۔لیکن یہ بات مختلف افراد ،مذاہب اور نظریات کے لحاظ سے مختلف تشریحات رکھتی ہے ۔قدرتی آفات کو زندگی کے امتحان کے طور پر بھی ضرور دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ انسان کو عاجزی ،صبر اور خدا کی بڑائی تسلیم کرکے اس کی جانب رجوع کا درس دیتی ہے ۔لیکن باظاہر یہ آفات سائنسی طور پر زمین کے قدرتی عمل کا حصہ ہوتی ہیں ۔بطور مسلمان ہمیں ان آفات پر اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے اور اس کی حاکمیت اور بڑائی کو تسلیم کرنا چاہیے اور اپنی بےبسی کا اعتراف کرنا چاہیے ۔دوسری جانب ہمیں اپنے ملک میں بھی گلوبل وارمنگ کے انسداد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار حالات سے بچا جاسکے ۔ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کی حفاظت ہی اس کا واحد حل ہو سکتا ہے۔