زمین کی تہہ میں ایک بیج دبایا گیا۔ کسی نے نہ دیکھا، نہ سنا، نہ سراہا۔ وہیں، مٹی کی گود میں چھپ کر، اُس نے خ اموشی سے خواب دیکھنے شروع کیے۔ باہر کی دنیا شور میں تھی، لیکن بیج کے اندر ایک خاموش عزم تھا۔ “مجھے اُگنا ہے۔ مجھے اپنی پہچان بنانی ہے۔”
پہلا دن برفباری کا تھا۔ سخت سردی نے مٹی کو جمادیا، لیکن بیج نے اندر ہی اندر گرمی پیدا کی۔ اس کی جڑوں نے ہلکی سی جنبش کی۔ برف نے اس پر سفید چادر ڈال دی، مگر وہ چپ رہا۔ دوسرا دن بارش کا تھا۔ پانی نے مٹی کو بھیگا دیا، کچھ بیج بہہ گئے، کچھ سڑ گئے، مگر وہ بیج اپنی جگہ جما رہا۔ تیسرا دن آندھی کا تھا۔ تیز ہوا نے اردگرد کے ذروں کو اڑایا، مگر بیج نے خود کو زمین میں مزید گہرا کرلیا۔زمین میں اپنی جڑیں ہر طرف پھیلا دیں، جڑیں مضبوط کر لیں
وقت گزرتا گیا۔ موسم بدلے، حالات سخت ہوئے، مگر اس بیج کے خوابوں کی آبیاری ہوتی رہی۔ اس نے اپنی مٹی سے محبت کی، اپنے خوابوں سے وفا کی، اور آخر ایک دن، اُس نے زمین کی چھاتی چیر دی۔ ایک ننھی کونپل ابھری۔ کمزور سی، کانپتی سی، مگر زندہ۔
دھوپ نے اسے جلایا، بارش نے بھگویا، آندھی نے جھنجھوڑا، مگر وہ کونپل روز تھوڑا سا اور بڑھتی۔ لوگ گزرتے، کچھ ٹھہرتے، کچھ ہنستے، کچھ مشورے دیتے: “یہ جگہ ٹھیک نہیں، یہاں تو سایہ بھی نہیں، یہ تو مرجھا جائے گا۔” مگر کونپل نے کسی کی نہ سنی۔
کئی مہینے گزر گئے۔ اب وہ ایک ننھا سا پودا تھا۔ لیکن لیکن اڈکی جڑیں بہت مضبوط تھیں ،اُس کے پتے ہرے، اُس کا تنا نرم، مگر مضبوط۔ ایک دن اُس کے اوپر ایک پرندہ آ بیٹھا۔ پودے نے کانپ کر اسے خوش آمدید کہا۔ پرندے نے کہا، “مجھے سایہ چاہیے، آرام چاہیے۔” پودے نے اپنی ٹہنیاں پھیلا دیں۔ وہ فخر سے مسکرایا: “میں کسی کے کام آیا ہوں۔”
اب روز پرندے آتے، تتلیاں رقص کرتیں، بارش کی بوندیں اس کے پتوں پر رقص کرتیں۔ مگر وہ وقت اسے یاد تھا جب وہ مٹی میں دفن تھا، اکیلا، خاموش، نادیدہ۔ وہ جانتا تھا کہ بلندی پر پہنچنا اتنا اہم نہیں جتنا زمینی سچائیوں کو یاد رکھنا۔
اسی طرح، ایک دن کچھ لوگ اس کے پاس آئے۔ اُن کے ہاتھ میں قلم تھے، آنکھوں میں سوال۔ وہ رپورٹرز تھے، سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے۔ انہوں نے پودے کی پُرامن موجودگی، اُس کی ثابت قدمی اور خوشبو دار فضا کو محسوس کیا۔ وہ حیران تھے کہ اس شور، اس جھوٹ، اس سنسنی خیزی کے دور میں یہ پودا کیسے بچا رہا؟
پودے نے جواب دیا، “میں نے اپنی جڑوں کو سچائی میں گہرا کیا، اور جھوٹ کی آندھیوں سے جھک کر گزرا۔ میں نے کبھی سنسنی نہیں پھیلائی، صرف سکون دیا۔”
رپورٹرز نے کہا، “تم تو ایک مکمل خبر ہو۔ تم تو ایک پیغام ہو۔ تمہاری مثال ہم دنیا کو دیں گے۔” اور وہ چلے گئے۔ کچھ دن بعد، ایک نیوز گروپ نے اپنی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنے دفتر کے باہر اسی پودے کی تصویر لگائی، جس کے نیچے لکھا تھا:
“ہماری پہچان – سچ، صبر، ثابت قدمی۔”
یہ نیوز گروپ “پہچان پاکستان” کہلایا۔ وہ سچ بولتے، دباؤ میں بھی حق کے ساتھ کھڑے رہتے، برفباری میں بھی گرم جذبے رکھتے، اور آندھی میں بھی خمیدہ مگر قائم رہتے۔ اُن کے رپورٹر بھی اُسی پودے جیسے تھے، جو جھکتے تھے، مگر ٹوٹتے نہیں تھے۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی جڑیں ہر طرف پھیلا دی تھیں، جڑیں مضبوط کر لی تھیں،
لوگوں نے اُن کا مذاق اُڑایا، کہا کہ یہ تو بس نرم لہجے، سادہ خبروں والے لوگ ہیں، یہ کب تک چلیں گے؟ لیکن وقت نے جواب دیا۔ وہی نرم لہجہ لوگوں کی روح میں اتر گیا۔ وہی سادہ خبریں دلوں کی آواز بن گئیں۔
آج، برسوں بعد، پہچان پاکستان نیوز گروپ ایک تناور درخت ہے۔ اس کے سائے میں کئی نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں، کئی نونہال سیکھ رہے ہیں کہ سچائی، محنت، صبر اور خلوص ہی وہ مٹی ہے جس میں اُمید کا بیج اگتا ہے۔
بیج آج بھی مٹی میں اگ رہے ہیں۔ موسم آج بھی سخت ہیں۔ مگر ہر وہ بیج جو خود پر یقین رکھتا ہے، وہ ایک دن پودا بنتا ہے، مسکراتا ہے، اور کسی نہ کسی کی پہچان بن جاتا ہے۔یہی پہچان پاکستان کی کہانی ہے۔۔۔بیج سے پہچان تک۔۔۔۔
ختم شد