امریکہ اور پاکستان کے الیکشن
انسان ۔۔۔۔۔احسان ناز
پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت نے قانون سازی تیز کر دی ہے اس وقت سپریم کورٹ میں 17 سے بڑھا کر 34 جج بنانے کے اختیارات بھی حاصل کر لیے گئے ہیں جبکہ ہائی کورٹ اسلام آاباد میں نو ججوں کی بجائے 12 ججوں کا تقرر کیا جائے گا اور اسی طرح سب سے بڑھ کر جو 26 ویں ترمیم پر عمل کیا گیا ہے وہ ہے تینوں سروس چیفس کی مدت ملازمت بڑھا دی گئی ہے اب انہیں پانچ سال تک ملازمت کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ان ترامیم کے پس پردہ جو بھی حکومتی اقدامات یا خواہشات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن بظاہر جب سپریم کورٹ میں 34 ججز ہوں گے تو مقدمات زیادہ سنے جائیں گے اور فیصلے بھی جلدی ہوں گے اور یہ اس بنیاد پر چیف آف آارمی سٹاف کو تین سال کی بجائے پانچ سالہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے خاطر خواہ نتائج وزیراعظم محمد شہباز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی تمناؤں کو پورا کرنے کی بات کی جا رہی ہے پاکستان تحریک انصاف نے آج قومی اسمبلی میں اور سینٹ میں بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ حکمران جو بھی قانون بنا رہے ہیں ۔اپوزیشن حلقوں کے خیال میں اس طرح کی قانون سازی کے ذریعے تو مخالفین کو دبایا جائے گا ۔پی ٹی آئی کے مطابق عمران خان کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے یہ سب کالے قوانین بنا ئے جارہے ہیں جس پر قومی اسمبلی میں جھگڑا ہوا اور وزیر اطلاعت و نشریات عطا اللہ تارڈ جوش میں ا کر تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی پر پل پڑے ایک دوسرے پر مکوں گھونسوں کی بارش کردی گئی، ان تھپڑوں کی بارش نے بتایا ہے کہ حکمران کس طریقے سے ملک میں بنائے جانے والے اٹامک پاور قوانین کا جلد نفاذ چاہتے ہیں تاکہ وہ ان قوانین کے ذریعےجکومت کو اتنا مضبوط کر سکیں لیکن اپوزیشن نے اب مولانا فضل الرحمان کے گھر کا راستہ دیکھ لیا لیا ھے مولانا فضل الرحمان کو بھی اپوزیشن کا حصہ بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں لیکن ایک بات جو میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں مولانا فضل الرحمان نے 26ویں آئنیی ترمیم میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا ہفتوں حکمرالوں اور تحریک انصاف کے لوگوں سے ملتے رہے اور آخر کار انہوں نے حکمرانوں کی 26 ویں آئنیی ترمیم کا ساتھ دیا جو کہ بڑے احسن طریقے سے پاس ہوئی اور اس موقع پر تحریک انصاف کے ارکان سینٹ اور قومی اسمبلی کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا گیا ،چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا اس لیے اپوزیشن کو مولانا فضل الرحمان سے بچنا چاہیے انہوں نے کبھی بھی ایسا فیصلہ نہیں کیا جو مولانا کے مفاد میں نہ ہو اس وقت اپوزپشن کے پاس مولانا فضل الرحمن کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے جبکہ حکومت انہیں وزارتیں فنڈز اور دیگر مراعات سے نواز سکتی ہے آج ایک اہم بات ہوئی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے پہلے کی طرح اعلان کیا ہے کہ مسلم لیگ نون ہمارے تحفظات ختم کرنے میں ناکام ہوئی ہے اور ہمیں مرکز اور صوبوں میں وہ نمائندگی نہیں دی جا رہی یہ ان کا ہم سے پڑھ لکھ کر وعدہ کیا گیا ہے تو میں اس موقع پر نواز شریف ،شہباز شریف اصف علی زرداری ایم کیو ایم مسلم لیگ ق اور دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین سے یہ پوچھنا چاھتا ھوں کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کئے گئے ہیں اب وہ بھی چیخیں مار رہے ہیں لیکن ان کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ مولانا فضل الرحمن لمبی چوڑی پریس کانفرنس کر کے جب اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں ان کے تحفظات کو پوری قوم سمجھ رہی ہوتی ہے لیکن بلاول بھٹو کی آہ و بکا سمجھ ے باھر ھے پیپلز پارٹی نے صدر چیئرمین سینٹ گورنر وزرائےاعلی اور دیگر اھم آئینی سیٹ کے اوپر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کا شور بھی یہی ہے کیا حکومت میں نہیں ہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کیا یہ اتنے بڑے بڑے عہدے اور آئنینی عہدے تو حکومت ختم بھی ہو جائے تو یہ عہدے قائم رہتے ہیں کیا یہ حکومت کا حصہ نہیں ہے عوام کو پاگل مت بناہیں اور جس طریقے سے اپ موجودہ تمام حکمران ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں خدارا غریبوں کی مدد کریں اور لوٹ مار چھوڑ کر خدمت کا سہرا سر پر باندھیں اللہ تعالی اپ کو توفیق دے اب تو عوام دعائیں کر کر کے بھی تھک گئی ہے کوئی مسیحا ائے اور ہماری ان ظالم حکمرانوں سے جان چھڑا دے اج امریکہ میں الیکشن ھے وہاں کی عوام کیا فیصلہ کرتی ھے اگر عوام نے ووٹ ٹرمپ کو دیے اور کاملہ ہیرس اقتدار میں آگئیں تو امریکہ بھی پاکستان بن جاے گا۔