سیاست میں دھرنا کلچر
دنیا بھر میں عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے احتجاج کیا جاتا تھا. دھرنا بھی احتجاج کی ایک قسم ہے. دھرنا اسی صورت سود مند ہوتا ہے. جب یہ پر امن اور مثبت سوچ کے تحت دیا جائے. پر تشدد اور منفی سوچ کے تحت دیا گیا دھرنا نا صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے. بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی نقصان دے ہوتا ہے. سیاسی جماعتوں کو دھرنا دیتے وقت اپنے مطالبات کا تعین کر لینا چاہیے. مطالبات ایسے ہو. جو حکومت وقت یا ریاستی ادارے پورے کر سکے. اگر دھرنے کا بنیادی مقصد ہی ملک میں انتشار اور بدامنی پیدا کرنا مقصود ہو. تو پھر کچھ نہیں کیا جاسکتا. پاکستان میں بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے دھرنا دھرنا کھیلنا شروع کر دیا ہے. جیسے ہی ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے. ان انتخاب کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت کے خلاف الیکشن میں شکست کھانے والی سیاسی جماعتیں دھاندلی کا نعرہ بلند کر دیتی ہے. اور سڑکوں پر نکل آتی ہیں. ان کا یہ احتجاج کسی غیر ملکی اشارے پر بھی ہوتا ہے. دشمن طاقتیں نہیں چاہتی
کہ ملک پاکستان ترقی کی منازل طے کرے. حکومت سازی کے کچھ ماہ بعد ہی کوئی بھی حکومت مہنگائی، بے روزگاری، اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہیں کر سکتی. اسے کم از کم تین سال تو دینے چاہیے. مگر ہمارا سیاسی کلچر ہی ایمپائر کی انگلی پر چلتا ہے. جس کسی کو ایمپائر کی طرف سے اشارہ مل جاتا ہے. وہ حکومت میں آجاتا ہے. دوسرا میدان سیاست سے آؤٹ ہو جاتا ہے. پاکستان تحریک انصاف نے 2014 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا. جو 126 دن تک جاری رہا. اس دھرنے کا بنیادی مقصد الیکشن میں ہونے والی دھاندلی تھی. اس دھرنا کی وجہ سے ملکی معیشت کو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا. چینی صدر کا دورہ بھی ملتوی ہوا. دھرنے سیاست کا کلچر ہے. مگر ہٹ دھرمی اور ضد کسی بھی صورت سیاست کے لیے سود مند نہیں. کچھ لینے اور دینے کو ہی کامیابی تصور کیا جاتا ہے. اگر سیاست میں صرف اور صرف حاصل کرنے کو ہی مقصد بنا لیا جائے. تو پھر حالات بنگلہ دیش جیسے ابتر ہوتے ہیں. وہاں وزیراعظم حسینہ واجد نے ایسا نظام سیاست قائم کر رکھا تھا. جو صرف اور صرف اپنی سیاسی جماعت کے لوگوں کو نوازتا تھا. جس سے عام شہریوں میں غم و غصہ کی فضا پیدا ہو رہی تھی. بالخصوص نوجوان طالب علم اس سیاسی نظام سے ناخوش تھے. انہوں نے اپنی ملک گیر احتجاجی تحریک کے نتیجہ میں حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا. پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں بہت مقبولیت حاصل کی. مگر اس سے یہ مقبولیت سنبھالی نہیں گئی. اس نے اپنی مقبولیت کے نشہ میں ملکی اداروں سے ٹکر لے لی. جس کے نتیجہ میں اس پر مشکل وقت شروع ہوگیا. آج بانی پاکستان تحریک انصاف غیر مشروط معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں. ان سے سوال بنتا ہے. پچھلے ایک سال سے آپ کہہ رہے ہیں. کہ 9 مئی ایک سازش ہے. تو پھر آپ معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں. اگر آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو ہی گیا ہے. تو پھر دل بڑا کرکے قوم کو بتا دے. کہ کس کہ کہنے پر ملکی اداروں پر چڑھائی کی تھی. ورنہ معافی والا ڈرامہ نہ کرے. آجکل جماعت اسلامی بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہی ہے. اس نے دھرنا دیا ہوا ہے. اس کے دھرنے کے مطالبات مہنگائی، بے روز گاری، بجلی کے نرخوں میں کمی ہیں. اس کے اس دھرنا کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مراتب ہو رہے ہیں. ان کی سکیورٹی کے نام پر لاکھوں روپیہ روز خرچ ہو رہا ہے. امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن ایک سمجھدار سیاست دان ہے. انہیں حکومت وقت کے ساتھ بیٹھ کر عوامی مسائل پر سنجیدگی سے بات چیت کرنی چاہیے. حکومتی موقف کو سمجھے اور اپنا موقف حکومت کو سمجھائے. کسی کے سر پر بندوق تان کر اپنے مطالبات نہیں منوائے جا سکتے. اس کے لیے مذاکرات ضروری ہے. دھرنا کی کامیابی کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے. کہ اس میں عام عوام جس کے مسائل کی بات کی جا رہی ہے. وہ کتنی بڑی تعداد میں باہر نکلی ہے. اگر دھرنا میں مخصوس سیاسی جماعت کے لوگ ہی شامل ہیں. تو پھر یہ دھرنا عوامی نہیں. صرف اور صرف ایک سیاسی جماعت کا ہے. جو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے سڑکوں پر بیٹھی ہے. اور عام عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے. اس ملک کے معاشی حالات پہلے ہی اچھے نہیں. رہی سہی کسر ہم لوگ منفی سیاسی سرگرمیاں کرکے نکال دیتے ہیں. کیا ہمارے دھرنوں سے ملکی خزانہ میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائے گے ہرگز نہیں. تو پھر ہمیں حکومت وقت کو ایسی مثبت تجاویز دینی چاہیے. جن پر عمل درآمد کرکے وہ مالی مشکلات کو کنٹرول کر سکے. دھرنا کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں. ائیں مل بیٹھ کر ملکی ترقی کے لیے ایک جامع پلان ترتیب دے. جس پر عمل کرکے ملک کو معاشی بد حالی سے نکال سکے.
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے.