وزیراعظم کا دورہ بلوچستان

34

گزشتہ روز وزیراعظم نے سب سے کم ڈیویلپڈ صوبے بلوچستان کا دورہ کیا میرے خیال میں یہ بہت اچھا فیصلہ تھا بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ محرومیوں کا شکار ہے اگر ہمارے حکمران دوسرے صوبوں کی طرح اس پر بھی توجہ دیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا جب بلوچستان بھی دوسرے صوبوں کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا وزیراعظم صاحب نے وہاں پر تمام بڑے سیاست دانوں سے ملاقاتیں کیں جس میں سیاست دانوں نے صرف اپنے مسائل ہی بیان کیے بہتر ہوتا کہ وزیراعظم وہاں عام لوگوں اور تعلیمی اداروں کا بھی رخ کر لیتے
وزیراعظم نے بلوچستان کی زراعت کو جدید سہولتوں اور ریسرچ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں ستائیس ہزار ٹیولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا اعلان کیا جو بلا شبہ خوش آئند ہے لیکن میرے خیال میں وزیراعظم کے علم میں نہیں ہے کہ ہم تیزی سے زمین کا واٹر لیول ڈاؤن کر رہے ہیں ذرا سوچیں اگر یہ ستائیس ہزار ٹیویل سولر انرجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زمین سے پانی نکالنا شروع کر دیتے ہیں تو
آ ئندہ چند سالوں میں بلوچستان میں بھی صاف پانی کے مسائل کھڑے ہو جائیں گے جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے ان مشکلات سے بچنے کے لیے ایک قابل عمل تجا ویز پیش کیے دیتا ہوں
جناب وزیراعظم اس سال ستائیس ہزار
کی بجائے صرف پندره ہزار ٹیولوں کو سولر
پر منتقل کر لیں لیکن اس کے ساتھ کسانوں کو سپرنکلر اریگیشن سسٹم بھی دیں تاکہ پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے دنیا میں ہم وہ
قوم ہیں جو اپنی زراعت کے لیے نوے فیصد اضافی پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ ہم نے پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کے سولر انرجی پر
ٹیولوں کو منتقل کرنے کی مکمل حمایت کروں گا لیکن طریقہ کار میں کچھ تبدیلیاں کر لی جائیں تو زیر زمین پانی کے لیول کو برقرار رکھا جا سکتا ہے پہلے مرحلے میں جہاں جہاں ٹیولوں کو سولر انرجی فراہم کی جائے وہیں زمین کے واٹر لیول کو ری فل کرنے کے لیے بڑے بڑے کنویں بنائے جائیں جس میں بارشوں دریاؤں اور ندی نالوں سے پانی لا کر ڈالا جائے تاکہ جتنا پانی ٹیوب ویل نکالیں اتنا واپس زمین میں چلا جائے سپرنکلر اریگیشن وہ واحد سسٹم ہے جس سے صرف دس فیصد پانی استعمال کر کے زیادہ سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اس کے ساتھ بلوچستان میں چونکہ بہت بڑا رقبہ ویران پڑا ہے بارشوں اور سیلابوں کے پانیوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے بڑی گنجائش موجود ہے جس کے لیے جھیلیں تالاب اور ڈیم بنائے جائیں تاکہ ان دو مہینوں میں ہونے والی بارشوں اور مختلف سمتوں سے آنے والے سیلابی ریلوں کے پانی کو محفوظ کر کے سارا سال استعمال میں لایا جا سکے گزشتہ سال جس طرح سلابوں نے تباہی مچائی تھی ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی
آ ئندہ بارشوں اور سیلابوں سے نقصان کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدامات کیے سپرنکلر اریگیشن ایک مہنگا نظام ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو بلا سود اورآسان اقساط پر سسٹم لگا کر دے اور ہر فصل پر ان سے پیسے وصول کر لے
اسی دورے میں وزیراعظم نے اعلان فرمایا کہ ہم پاکستان سے ایک لاکھ طلبہ کو سکالرشپ پر چائنہ بھیجیں گے جناب وزیراعظم اس اعلان سے پہلے اگر آ پ زمینی حقائق پر نظر ثانی فرما لیتے تو شاید آ پ کا یہ اعلان حیرانگی کا باعث نہ ہوتا ہم اپنے ملکی اخراجات پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور مختلف ممالک سے قرض لے رہے ہیں اور طلبہ کو باہر بھیج کر ایک خطیر رقم ملک سے باہر بھیجنے کی تیاری بھی کر رہے ہیں میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ سکالرشپ پروگرام بند کر دیں اسے جاری رکھیں لیکن اس کا طریقہ کار تبدیلی مانگ رہا ہے
ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ ہماری تین سو
چا لیس یونیورسٹیوں میں کیا کوئی ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں جو ہمارے طلبہ کو پاکستان میں ہی اعلی اور جدید تعلیم سے ہمکنار کر سکے اگر نہیں تو پھر اس طرح کر لیں کہ چین سے ایک سو ماہر افراد جو جدید تعلیمی نظام کمپیوٹر، سائنس، ہیلتھ اور ٹیکنالوجی پر مکمل عبور رکھتے ہیں انہیں سرکاری خر چ پر پاکستان بلائیں وہ ہمارے دس ہزار اساتذہ کو ٹریننگ دیں اور واپس چلے جائیں ان دس ہزار اساتذہ میں سے صرف دو سو کو ٹرینر بنا دیں اور باقیوں کو طلباء کو پڑھانے میں مصروف کر دیں یوں ایک لاکھ نہیں بلکہ تمام طلبہ جدید تکنیک سے استفادہ حاصل کر سکیں گے اور ہمارے ملک کا ایک پیسہ بھی باہر نہیں جائے گا
یا پھر ہندوستان کی طرح پاکستان کے بیس بڑے شہروں میں ایجوکیشن سٹیز بنائیں دنیا کے بڑے اداروں کو دعوت اور سہولتیں دیں کہ وہ پاکستان آ ئیں اور ہمارے طلبہ کو پڑھائیں اگر آ پ یہ بھی نہیں کر سکتے اور طلبہ کو باہر بھیج کر پڑھانے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو پھر انہیں سکالرشپ نہیں سٹڈی لون دیں تاکہ یہ اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد قرض ا قساط کی صورت میں ریاست کو واپس کر دیں
جناب وزیراعظم آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ پاکستان کے بہترین اذہان کے حامل طلبہ کو سرکاری اخراجات پر پڑھنے کے لیے باہر بھیجیں گے اور وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آ کر ریاست کو خدمات پیش کر یں گے نہیں حضور وہ اعلی تعلیم کے حصول کے بعد کبھی واپس نہیں
آ ئیں گے باہر کے ممالک کی سہولتیں اور رنگین زندگی انہیں وہیں پر قید کر لے گی اس سے ریاست کی انویسٹمنٹ بھی ڈوب جاے گی ہم قیمتی اذہان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے طلبہ کے لیے آپ کی فکر قابل تعریف ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ اپنے تعلیمی نظام کو اس قابل بنانے کے لیے انویسٹمنٹ کی جائے کہ ہمارے اور دوسرے ممالک سے طلبہ حصول علم کے لیے پاکستان آئیں جناب وزیراعظم آ پ یہ کر سکتے ہیں اور کر گزریں اللہ کریم آ پ کا حامی و ناصر ہو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.