آخر ہم کیوں نہیں  ؟

67

احساس کے انداز

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے جل رہی ہے ۔بڑھتی ہوئی گرمی اور سردی دونوں ہی بنی نوح انسان کے لیے چیلنج کی صورت اختیار کر چکے ہیں  ۔بدلتے موسموں اور ان کی شدت سے بچنے کا واحد حل شجر کاری کو  سمجھا اور بتایا جارہا ہے ۔دنیا بھر میں انفرادی اور اجتماعی طور پر زمین کو سرسبز  اور شاداب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ذرا  سوچیں کہ انڈونیشیا کے دو بوڑھے میاں بیوی پیرانہ سالی  کے باوجود  دس لاکھ درخت لگا سکتے ہیں ۔ جنہیں اقوام متحدہ نے امریکہ بلاکر ان کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ پوری دنیا کے سامنے خراج تحسین بھی پیش کیا  ۔دوسری جانب انڈیا کا ایک غریب سایکل والا بابا اپنے علاقے کے ایک ہزار کنال کے وسیع رقبے کو ایک خوبصورت گھنے جنگل میں تبدیل کر دیتا ہے اور اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج  کرا لیتا ہے ۔دیکھنے میں یہ بھی آیا کہ اس جنگل کی خوبصورتی دیکھ کر سنگاپور کے نایاب خوبصورت پرندے سنگا پور جیسے خوبصورت خطے کو چھوڑ کر اس گھنے جنگل کو رونق بخشتے ہیں ۔تیسری جانب جنوبی افریقہ کے دو دوست پہلے سے موجود  زوما کے جنگل جیسا ایک اور جنگل اگا  کر تاریخ رقم کر دیتے ہیں ۔یہ جنگل ہمارے چھانگا نانگا کے جنگل سے دوگنا بتایا جاتا ہے ۔ہم دنیا کی مثالیں دیتے ہیں جو یقینا” قابل تحسین ہیں لیکن ان کی تقلید میں اس بارے میں پاکستان میں برپا  ہونے والے انقلاب سے بےخبر ہیں ۔ہمیں اپنے لوگوں کی  بھی حوصلہ افزائی  بھی ضرور کرنی چاہیےاور یہ تبھی ممکن  ہو سکتی ہے جب  ہمیں  ان کے اور ان کے کارناموں  بارے میں معلوم ہو سکے  جو نئی شجرکاری کے لیے کر رہے ہیں ۔

اک شجر ایسا    محبت کا    لگایا   جاۓ

جس کا ہمساۓ کے آنگن میں بھی سایہ جاۓ

پاکستان میں بھی بہت سے لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس فرض کی ادائیگی میں پیش پیش ہیں اور کچھ لوگوں کے کام تو مثال بن جاتے ہیں ۔یوں تو شجرکاری کی لہر پورے پاکستان کی طرح بہاولپور میں بھی پھیل رہی ہے لیکن خواتین بچوں اور نوجوانوں کا اس میں شامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اب یہ سلسلہ اپنے عروج کو  ضرور   پہنچے گا ۔بہاولپور سے کچھ این جی اوزجیسے   سائبان ویلفئیر فاونڈیشن  کے پروفیسر ڈاکٹر مدحت کامل حسین ماہر زراعت اور مسز آسیہ کامل ، سائبر ایکسپرٹ محمد اسد الرحمن ، اجتماعی ترقیاتی کونسل کے  ڈاکٹر عبدالقیوم شہاب و شعیب ملک، پاکستان سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن رباب طاہر، اقصی رشید،  ملک محمد طارق آرائیں کی رہنمائی میں مختلف علاقوں، سکول و کالجز میں ہزاروں پودے لگا کر ، جدید ٹیکنالوجی و ای ایگریکلچر ایکسپرٹ نوجوان ایگریکلچر آفیسر سعدالرحمن ملک کے تفکرات سعدی کے عنوان سے اپنے کالمز کے ذریعےشجرکاری کی افادیت اجاگر کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ جبکہ بہاولپور کےسماجی رہنما محمد اکمل بھٹی سوشل میڈیا پر بہت سرگرم ہیں جبکہ بہاولپور کے معروف ادبی و سماجی رہنما ڈاکٹر عبدالرحمن ناصر نے اپنے فارم ہاوس پر دو کنال باغیچہ جس میں پاکستان میں پائے جانے والے تمام فروٹس کے تین تین پودے جبکہ دو کنال ذخیرہ لگا کر حیرن کردیا ہے ۔۔وہ شجرکاری کے لیے دوستوں کو گھر گھر پودے بھی فراہم کرتے ہیں ۔پاکپتن کے غلام رسول پاکستانی چیرمین گرین وکلین پاکستان جو ایک بڑے  اربن فاریسٹ کا آغاز کرچکے ہیں ۔اپنے رکشہ ،سایکل ،وین  کے ساتھ ساتھ پیدل سفر کے  ذریعے ملک کے طول وعرض میں لاکھوں درخت کاشت کر چکے ہیں ۔ان کا اصل ہدف چولستان کا صحرا ہے  جہاں وہ نہ صرف درخت لگا  رہے ہیں بلکہ ان کی دیکھ بھال  اور آبیاری کا فریضہ بھی ادا کر رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی مرحوم لاوارث بچوں کو گود لیتے تھے مگر میں لاوارث اور بڑی عمر کے  درختوں کو گود لیتا ہوں ۔اپنے اس مشن کے تحت وہ ہزاروں سوکھتے درختوں کو سرسبز کر چکے ہیں ۔غلام رسول پاکستانی سترہ لاکھ پودے لگا چکے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کا ٹارگٹ پچاس کروڑ پودے رکھا ہوا ۔ وہ اپنی آئندہ نسل کو سرسبز پاکستان دینے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔شجر کاری کی تاریخ کا سب سے بڑا چھ سو شہروں کا ٹور چند ماہ بعد شروع ہو گا  جو دنیا کو حیران کردے گا ۔آج  اس پاک دھرتی کو سبز پوشاک سے سجانے کے لیے ایسے ہی پرعزم  نوجوانوں  سوشل ورکرز کی ضرورت ہے ہمیں بطور قوم ایسے پرعزم لوگوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔یقینا” پاکستان بھر میں کچھ اور بھی اس طرح کے قومی درد    اور جذبہ رکھنے والے زندہ دل ورکرز  یہ کام کر رہے ہیں  ۔ان کو خراج تحین پیش کرنے  اور حوصلہ افزائی کے لیے ان کی خدمات کو  بھی میڈیا پر  اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو جنگی بنیادوں پر پوری انسانیت کے لیے کام کر رہے ہیں ۔جو بوڑھےاور بیمار   درختوں کی آبیاری  اور حفاظت کر رہے ہیں ۔بے شک شجر کاری  اور انہیں کٹنے اور آگ لگنے سے بچانا آج کے دور میں انسانیت کی بہت  بڑی خدمت ہے۔  

وہ   پیڑ   کاٹ کے لکڑی کو بیچ کر خوش تھا

پھر اسکے بعد کڑی دوپہر میں  وہ  جلتا تھا  

سوال یہ ہے کہ آخر ہم سب ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟ ا ہمارا تو مذہب اور دین بھی اس سرگرمی کا حکم دیتا ہے ۔ہمارے نبی پاک ؐ کے شجر کاری اور درختوں کی حفاظت کے لیے بےشمار احکامات اور کئی احادیث موجود ہیں ۔آپ نے فرمایا ہے کہ ” اگر تمہارے ہاتھ میں پودا ہو اور ساتھ ہی دنیا کا آخری وقت آن پہنچے یعنی قیامت کا اعلان ہو جاے ٔ پھر بھی تمہارے ہاتھ میں جو پودا ہے اسے لگا دیں “۔پاکستان کو قدرت نے زرخیز مٹی ،عمدہ آب وہوا ،خوبصورت چار موسموں سے نوازا ہوا ہے ۔شجر کاری کے لیے کسی چیز کی کمی نہیں ہے ۔ہاں ضرورت ہے تو صرف جذبے ،ہمت اور عزم کی ہے اگر کمی ہے تو فطرت سے محبت اور جنگل کی شادابی سے محبت کی ہے ۔درخت اور جنگلات ہماری زمیں کا حسن  ہوتے ہیں اور سبز پھیپھٹروں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔اس لیے درخت لگانا اور ان کی حفاظت کرنا ہمارے اجداد کا ہم پر وہ قرض ہے جس کی ادائیگی  حقوق العباد میں شمار ہوتی ہے اور یہ صدقہ جاریہ بھی کہلاتی ہے ۔ پھر جذبے کی کمی کیوں ؟ ہمت کی کمی کیوں ؟ زندہ دلی کی کمی کیوں  ؟ فطرت سے محبت اور جنگل کی شادابی سے دل لگی کیوں نہیں  ؟  اۓ سبز  پرچم والی قوم وطن کو سرسبز و شاداب کر دو! ۔ملک میں ہر طرف سایہ  کردو ! اپنی پاک سرزمین کو گرمی کی شدت سے بچانے کے لیے آگے آئیں  کیونکہ پانی کے بغیر درخت اور درختوں کے بغیر بارش ممکن نہیں  ہے ۔یاد رہے کہ درخت انسانوں کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں مگر انسان درختوں کے بنا زندہ نہیں رہ سکتے ۔پانی اور سانس لینے کے لیے درخت اگاؤ  یہی وقت کا تقاضا ہے ۔درخت انسانوں کی ہی نہیں جانور ،چرند ،پرند بلکہ درندوں کی بھی حقیقی ضرورت اور ان کی زندگی کی بقا و سلامتی کی ضمانت  ہوتے ہیں ۔اس لیےہمیں چاہیے کہ  ہم سب درخت لگائیں  ان کی حفاظت کریں اور زندگی بچائیں ۔ 

حالیہ برسوں میں  جنگلات کی بحالی اور پودے لگانے کے کئی انٹرنیشنل  اور علاقائی پروگرام مرتب کئے گئے ہیں ۔ان منصوبوں کے تحت عالمی درجہ حرارت میں اضاے کو محدود کرنا سر فہرست ہے ان میں سے سب سے بڑے پروگرام کے پاس اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے ۲۰۳۰ ء تک کا وقت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے ۔ایک جانب تو اس شجر کاری کے محدود نتائج شجر کاری ی راہ میں  روکاٹ ہیں تو دوسری جانب درختوں  کو کٹنے اور آگ سے جلنے سے بچانا ممکن نہیں ہو پارہا  ہے ۔پاکستان نے اپنے شجرکاری کے اہداف ی تکمیل کے لیے ۲۰۱۹ء میں ٹین بلین ٹری سونامی پراجیکٹ لانچ کیا تھا اور ۲۰۲۳ء تک کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی ۔ ماحولیا تی ماہرین کے مطابق اب تک ایک ارب درخت لگاۓ جاچکے ہیں جو زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں لگاے گئے ہیں ،جبکہ ان کی اصل ضروت تو ہمارے میدانی اور صحرائی علاقے کو ہے جہاں  درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے ۔یہاں شجرکاری کے منصوبے  صرف “کاغذی دنیا ” تک ہی محدود رہتے ہیں ۔یہاں کے درخت یا تو گرمی کی شدت سے مر جاتے ہیں یا پھر لگنے ہی نہیں پاتے ۔دوسری جانب درخت اور خصوصی پھلدار درختوں کی کٹائی کا کام رکنے کا نام نہیں لیتا ۔جو درختوں میں کمی کی وجہ بن رہی ہے ۔جب تک درخت کٹنا اور آگ سے جلنا بند نہیں  ہوں گے ۔شجرکاری کے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو سکتا ۔اپنی آنے والی نسل کی زندگی کی بقا کے لیے صرف درخت لگانا ہی کافی نہیں بلکہ درخت بچانا  بھی بہت زیادہ اہم ہے ۔جو صرف ریاست کی ہی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہداری ہے ۔فوری طور پر بلاوجہ پرانے اور گھنے سایہ دار درختوں کے کاٹنے پر پابندی لگائی جاے ٔ کیونکہ یہ قومی سرمایہ شمار ہوتے ہیں ۔

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب  پڑی   جو شجر پرانا   تھا  

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.