ترک اداکار جلال آل ارطغرل ڈرامہ سیریز کا کردار عرف عبد الرحمن غازی

44

میں نے پاکستانی بھائیوں کی محبت کی شدت کو دیکھ کر خود کو اس محبت کے نیچے دبا ہوا محسوس کیا* ۔
مجھے بریانی بہت پسند ہے بٹر چکن بھی بہت پسند ہے۔
جب ہمیں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے پاکستان ہی مدد کو اتا ہے۔
جب ترکیے میں زلزلہ آیا کوئی بھی آفت آئی پاکستانی طیارے امداد لے کر پہنچ گئے۔
ارطغرل ڈرامے نے مجھے بہت پرجوش کیا اور میری روح کو متحرک کیا۔
فیروز خان، عمران عباس ہمایوں سعید اور عدنان صدیقی میرے گہرے دوست ہیں۔
پاکستانی ڈراموں میں کہانیاں اور ان کا معیار بہت اچھا ہے ۔
پاکستانی ڈراموں میں کام کرنے کی آفر آئی تو میں ضرور غور کروں گا۔
ہمیں صلاح الدین ایوبی ڈرامے کی کامیابی پر بہت خوشی ہے میں ترک ڈائریکٹر ایمرے کونک اور پاکستانی پروڈیوسر ڈاکٹر کاشف انصاری اور ڈاکٹر جمشید علی شاہ کو سلام پیش کرتا ہوں۔
میں اپنے پاکستانی بھائیوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے برادر ملک ترکیہ میں مختلف شعبوں میں بہت سے منصوبے شروع کر سکتے ہیں اس سلسلے میں ہم آپ کی زیادہ سے زیادہ رہنمائی کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہم برے وقت کے دوست ہیں لیکن ہمیں اچھے وقت میں دوست بننے کی ضرورت ہے۔
کشمیر کے لیے ہم اپنی ریاست کے موقف کو سراہتے ہیں اور اس ساری صورتحال میں پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں۔
ہم خطہ کشمیر خصوصا آزاد کشمیر کے ساتھ فلاحی کاموں کے لیے کچھ ارادے اور منصوبے رکھتے ہیں۔
پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے بہت ہی خاص جغرافیے والا ملک، میں ترک عوام کو کہتا ہوں کہ وہ ضرور جا کر پاکستانی عوام سے ملے دیکھیں وہ کتنے گرم جوش ہیں وہ ترکیہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔

انٹرویو: شبانہ ایاز
shabanaayazpak@gmail.com

مشہور ترک اداکار جلال آل ارطغرل ڈرامہ سیریز کے کردار عرف عبد الرحمن غازی نے استنبول میں ترک پاک ویمن فورم کی ہیڈ شبانہ ایاز کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ

میرا پاکستان کا پہلا دورہ تقریباً 4 سال پہلے ہوا تھا، پاکستان میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جنہیں ہم اپنے بچپن سے پسند کرتے آئے ہیں، جنید جمشید، ہم ان سے پیار کرتے ہیں۔ہمیں عمران خان سےبھی پیار ہے، میں ترک شاعر مہمت عاکف ارسوئے کا مداح ہوں، وہ ہمارے قومی ترانے استقلال مارش کے مصنف ہیں، اور جیسا کہ ہم نے ان پر تحقیق کی، ان کا تعلق علامہ اقبال سے ان کی جوانی میں تھا ۔
ہم نے ان کی کچھ کتب اور ان کی شاعری کا مطالعہ کیا۔جس کی وجہ سے
میری ان سے ایک سنجیدہ محبت ہے۔
اور میں فطرت کو بہت پسند کرتا ہوں،
خاص طور پر پاکستان کے شمالی علاقے، سوات کا علاقہ،
ایبٹ آباد ۔
بلوچستان میں، بہت خوبصورت جغرافیائی علاقے ہیں،
بہت خوبصورت پہاڑوں اور سبز پانیوں والے علاقے ہیں۔
اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ 100 سال پہلے ہمارے بزرگوں کے بزرگ بھی وہاں تھے۔
…اس معاملے میں سب سے پہلے بلقان، پھر بلقان، طرابلس بعد میں چناکلے جنگ اور کاگول جنگ میں برصغیر پاک و ہند ،موجودہ حالیہ پاکستانی مسلمانوں نے بے مثال مدد کی تھی۔
ہم ایک بھائی کا تعلق اور رشتہ رکھتے ہیں۔
میں توقع رکھتا تھا کہ ایک دنیا ہمیں بھی نصیب ہوگا کہ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ گلے ملیں گے۔اور
الحمدللہ 4 سال پہلے مجھے یہ نصیب ہوگیا۔
اور یہ موقع دو تین بار نصیب ہوا۔
پاکستان جانے کا تجربہ بہت خوبصورت تھا، بہت دلچسپ تھا۔
اور میں ایک ملاقات میں بہت شرمندہ ہوا۔
میں اپنے پاکستانی بھائیوں سے محبت کرتا تھا مگر میرے پاکستانی بھائیوں کی محبت کی انتہائی شدت کو دیکھ کر میں نے خود کو اس محبت کے نیچے دبا ہوا محسوس کیا۔
ایک شاندار محبت، شاندار جذبہ و جوش، ایک دوسرے کو گلے لگانا۔
انشاء اللہ ہم ترک بھی ان کی طرح ہو سکتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ ہم ان خوبصورتیوں کے لائق ہوسکتے ہیں جیسا وہ(پاکستانی) ہمیں سمجھتے ہیں۔
پاکستان جانے کا تجربہ بہت اچھا تھا، البتہ یہ کافی نہیں تھا کیونکہ یہ مختصر تھا۔
ایک سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں کس چیز سے آپ متاثر ہوئے تو انہوں نے شبانہ ایاز کو ایک خاص واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ
پاکستان سے بہت ساری خاص یادیں ہیں، یقیناً میں آپ کو بتاؤں گا کہ کون سی۔۔
مجھے اپنا دوسرا دورہ پاکستان اچھی طرح یاد ہے۔ ہم کراچی میں ایک پروگرام میں تھے۔جب ہم ہوٹل پہنچے تو ڈیوٹی والوں نے کہا، 8 عام مزدور، کام کرنے والے بچے ملنے آئے ہیں اور زیادہ تر غریب بچے ہیں ” جنھوں نے ہماری ڈرامہ سیریز دیکھی اور اسے بہت سنجیدگی سے اپنایا اور انہوں نے خود ہی اس سیریز کے مناظر بنائے۔
وہ سیریز کی باتوں میں بہت وقت گزارتے ہیں،انہوں نے سیریز کی طرح زرہیں ، تلواریں بنائی ہیں۔ اور سیریز کی طرح ایکشن، لڑائیاں کھیلتے ہیں۔
وہ سوات سے 22 گھنٹے یا اس سے زیادہ کا سفر طے کرکے آئے تو وہ صرف مجھے دیکھنے کے لیے آئے تھے، اور ان کی جیب میں پیسے بھی نہیں تھے۔ وہ بہت جذباتی منظر تھا، میں نے ان سے کہا، چلیں ہوٹل میں، آپ آج رات
ہوٹل میں ہمارے مہمان بنیں۔ آپ میرے مہمان ہیں۔
اور کل یا پرسوں
جائیں۔ انہوں نے کہا نہیں، ہم نہیں رہ سکتے ہم سب کو صبح کام پر جانا ہے، اگلے دن کام ہے،
بس ہم نے تمہیں دیکھ لیا ہے یہ ہمارے لئے کافی ہے ، ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے،
میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم کھانا منگواتے ہیں،اپ کھانا کھائیں۔ ہم آپ کو رکنے کے لیے قائل نہیں کر سکتے،تو چلو بس کے لیے ادائیگی کرتے ہیں، یہیں ٹھہریں، مت جائیں، آپ ہمارے لیے آئے ہیں، انہوں نے شرماتے ہوئے کہا، نہیں، ہمارے لیے یہی کافی ہے، ہم بہت خوش ہیں،
وہ نوجوان تھکے ہوئے اور بے خواب تھے، انہوں نے پھر سے ایک پرانی بس میں 22 گھنٹے تک واپسی کا سفر کیا،
ہم سب نے ایک دوسرے کو گالے لگایا،
وہ مجھے تقریباً ایک گھنٹہ محبت سے دیکھتے رہے۔
زیادہ سے زیادہ شاید 1 گھنٹہ بات ہوئی۔
میں بہت احساس مند تھا۔
میں بہت حیران تھا۔
یہ کیسا استقبال ہے؟
یہ کیسی محبت ہے؟
یہ کیسا عشق ہے؟
اللہ پاکستانی جوانوں سے خوش ہو۔
ان پاکستانی بھائیوں کو میری طرف سے سلام پیش کریں۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان کن باتوں کا فرق ہے جلال آل نے شبانہ ایاز کو بتایا کہ
ترکیہ اور پاکستان میں اصل میں اتنا فرق نہیں ہے۔
میرا مطلب ہے،کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔
ہم ترک لوگ بھی مصالحے پسند کرتے ہیں۔
لیکن کچھ علاقے ایسے ہیں جو مصالحے زیادہ پسند نہیں کرتے ہیں۔
ہمارے پاکستانی بھائی، ماشاءاللہ، انہیں زعفران پسند ہے، انہیں مصالحہ دار کھانا پسند ہے۔
میں کبھی نہیں بھولوں گا، کراچی میں ایک گلی تھی،
ہمارے استقلال ایونیو کی طرح، ہم اس سڑک پر ایک خوبصورت ریستوران گئے۔
تقریباً 100-200 میٹر تک دونوں طرف سٹریٹ فوڈز ہیں۔
جیسے ہی ہم گلی میں داخل ہوئے،
مصالحوں کی حیرت انگیز خوشبو آنے لگی۔
میں نے نیویارک میں کچھ ایسا ہی منظر دیکھا تھا ۔
آپ جانتے ہیں کہ مصالحہ دار کھانا آپ کے جسم پر کس طرح پسینہ کرتا ہے۔
لیکن ماشاءاللہ
اگرچہ مجھے مصالحہ دار کھانا بہت پسند ہے۔
ہم نے ہلکے سے مصالحہ دار کھانے کا آرڈر دیا۔
میں نے بریانی کا آرڈر دیا۔ مجھے بریانی پسند ہے۔
بٹر چکن بھی پسند ہے۔
ہم نے بٹر چکن کا بھی آرڈر دیا۔
میں نے ہلکے سے مصالحہ کا کہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے بہت زیادہ مصالحہ ڈالا ۔
میں نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ اسے ہلکا سا مصالحہ دار بنائیں۔
کھانا کھاتے وقت
میں نے کہا مجھے پسینہ آ رہا ہے۔
لیکن
پاکستان کے لوگ تیز مرچیں کھا سکتے ہیں۔
وہ واقعی اس سے محبت کرتے ہیں.
اور وہ بہت میٹھی چائے پیتے ہیں۔
ہم بہت میٹھی چائے نہیں پیتے۔
میرا مطلب ہے،
میٹھی چائے پینے والے ہیں لیکن عام طور پر ہم تھوڑی سی چینی یا لیموں کے ساتھ چائے پیتے ہیں۔
پاکستان میں بہت میٹھی چائے پی جاتی ہے۔
پاکستان میں دودھ کی چائے پیتے ہیں۔
ہم دودھ کی چائے نہیں پیتے ۔
ہم عام طور پر سادہ کالی چائے پیتے ہیں۔
ایک مشترکہ خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہمارے زبان میں بہت سارے مشترک عام الفاظ ہیں۔
لہذا، ہم دونوں ملکوں میں بہت زیادہ ثقافتی اتحاد ہے۔
مزید برآں، اپنی تاریخی ساخت کے ساتھ، پاکستان برصغیر پاک و ہند، جزیرہ نما ہندوستان میں تقریباً 400 سال تک مغلوں کی حکومت میں رہا۔
مغل دراصل ترک تھے۔ اس نقطہ نظر سے، ہم وہاں ترکیہ کی ثقافت، مسلم ترک ثقافت کا ایک گہرا اثر دیکھتے ہیں۔
پاکستان میں سنی مسلمان
زیادہ تر،
اور بھی مسلک ہیں،
یہ سب ہمارے بھائی ہیں۔ لیکن اعتقاد کے لحاظ سے چونکہ ہمارے ملک کے لوگ سنی اسلام یعنی فقہ حنفی کی طرف زیادہ مائل ہیں، خاص طور پر جانشین کی حیثیت سے، پاکستان میں میں نے مولانا جلال لدین رومی اور اناطولیہ کے تصوف کے دوسرے بڑے استادوں کے صوفی پہلو سے بھی بہت محبت دیکھی ہے۔
سیاسی طور پر بھی دونوں ممالک حقیقی معنوں میں بھائیوں کی طرح ہیں۔ مثال کے طور پر آذربائیجان، پاکستان اور ترکیہ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تینوں ایک مضبوط گرہ کی طرح آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ آذربائیجان کو یہاں سے سلام۔ہم میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ لیکن جو چیز مجھے دکھ دیتی ہے۔ اتنی مشترکات کے باوجود، ایک ساتھ خون بہانے کے باوجود، گیلی پولی کی لڑائیوں کے باوجود جن کا ہم نے سو سال سے ذکر کیا ہے اور دوسری تحریک آزادی کے باوجود، بدقسمتی سے اس دور میں پاکستان اپنے اندر شدید مشکلات کا شکار ہے۔ملک ابھی تک ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکا ۔اس حالت میں بھی علامہ محمد اقبال کی روح کو سکون نصیب ہو۔ ان کی قیادت میں، انہوں نے بدلے میں کچھ بھی توقع کیے بغیر ہمیں بہت سی امداد بھیجی۔ اللہ ان سب سے راضی ہو، ان کی روح کو سکون ملے، ہم یہاں سے اپنے اسلاف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔۔
ہمارے بہت سے مشترکہ فرائض ہیں۔ جب ہمیں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے پاکستان ہی مدد کو آتا ہے۔ جب پاکستان کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم سب سے پہلے آتے ہیں۔ چاہے زلزلہ ہو، سیلاب ہو یا کوئی اور ضرورت، بھائی کبھی نہیں پوچھتا کہ تمہیں کیا چاہیے؟ وہ صرف براہ راست پہنچ جاتا ہے۔ ہم بھی اسی طرح ہیں۔ ایک بھائی کبھی نہیں پوچھتا کہ تمہیں کیا چاہیے؟ جب دوسرے ممالک کہہ رہے ہیں ہوتے ہیں کہ ہمارا طیارہ ہوا میں ہے، جب ترکیہ میں زلزلہ آیا ہے، کوئی آفت آئی ہے۔اس دوران پاکستانی طیارے امداد لیکر پہنچ جاتے ہیں ہمارا رشتہ ہی ایسا ہے، ہم بھائی ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ
میں اداکاری کے شعبے میں کیسے آیا ۔۔؟؟
جلال آل نے بتایا کہ
تقریباً 25 سال پہلے،
جب میں ہائی اسکول میں تھا تو میں نے اسکول میں اپنے اساتذہ کی حوصلہ افزائی سے تھیٹر میں کام شروع کیا۔
یہ ایک مشغلہ تھا۔ اس کے بعد میں سوچا کہ کیا میں اسے پروفیشن میں بدل سکتا ہوں۔۔
میں برصہ میں پلا بڑھا ہوں۔ میرا آبائی شہر آرٹیوین ہے۔
میں مشرقی بحیرہ اسود کے علاقے سے ہوں۔
اس وقت یقیناً یہ ایک مشغلہ تھا۔
اس کے بعد ہم استنبول آگئے۔
برصہ میں تعلیم ناکافی تھی۔
کاروبار سب کچھ استنبول میں تھا۔
میں نے یہاں آکر سنیما اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی۔
میں نے پڑھائی مکمل کی۔
لہذا، میری شدت نے آہستہ آہستہ اداکاری، اسکرین رائٹنگ اور پروڈکشن پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کردی تھی
میں دونوں کو ایک ساتھ جاری رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔میں نے ایک فلم
فتح 1453 میں کام کیا۔
میں نے وہاں اداکاری کی۔
کچھ اور ڈراموں میں اداکاری کی۔
ایک اور فلم کی جو 2010 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں برصہ واپس آیا۔ تقریباً دو سال
میں اپنی فیملی کے ساتھ رہا۔ پھر ارتغرل سیریز کے لیے ایک پیشکش آئی۔۔ اس ڈرامے نے مجھے بہت پرجوش کیا۔
یہ واقعی ایسی چیز تھی جس نے میری روحانی دنیا کو متحرک کیا۔
میں ایک ایسا انسان ہوں جو اپنے پرچم کے سائے میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی ریاست کا وفادار، میں اپنی روحانی اقدار کے ساتھ وفادار رہنے کی کوشش کرتا ہوں،
اور جب میں نے پروڈکشن ٹیم بلند کا خلوص، کام کے بارے میں ڈائریکٹر کا جذباتی رویہ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کام نہیں بلکہ ایک جذبہ تھا، تو ہم نے کہا، ہم اس ڈرامے کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں۔
پاکستانی ڈراموں کو پسند کرتے ہیں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ
ہاں میں نے پاکستانی ڈرامے ضرور دیکھے ہیں۔ *
خدا اور محبت،* مجھے واقعی یہ ڈرامہ دیکھ کر بہت مزہ آیا۔
اس میں بہت ڈرامائی کہانی تھی۔
کسی حد تک ناممکن محبت۔
میرے بھائی فیروز خان کو اس ڈرامے میں بہترین اداکاری کرنے پر سلام۔
میرے بہت سے پاکستانی اداکار دوست ہیں۔
جب وہ استنبول آتے ہیں تو میں ان سے خصوصی طور پر ملتا ہوں۔
اور جب میں پاکستان جاتا ہوں تو وہ مجھ سے ملتے ہیں۔
ان میں سے ایک فیروز حان ہے۔
عمران عباس ہے۔
ہمایوں سعید
عدنان صدیقی ۔۔ان سب دوستوں کو میرا سلام پہنچے ۔
میرے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں ایسے بہت سے دوست ہیں۔
جب وہ آتے ہیں تو ہمیں بلاتے ہیں۔
جب ہم پاکستان جاتے ہیں تو وہ رابطے میں رہتے ہیں۔
آپ کہاں ہیں؟ آپ کس ہوٹل میں ہیں؟
وہ کہتے ہیں، آئیے آپ کو لے جائیں اور آپ کو جگہیں دکھائیں۔
پاکستانی ڈراموں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
پاکستانی ڈرامے بہت اچھے ہیں۔
اور پاکستانی ڈراموں میں کہانی اور ان کا معیار
بہت اچھا ہے. لوکیشنز بہت خوبصورت ہیں۔
پاکستانی پروڈیوسر بہترین پروڈکشن بنارہے ہیں۔
معیاری اور قابل دید کام کررہے ہیں۔ وہ کامیاب کام کر رہے ہیں۔

پاکستانی ڈراموں میں کام کرنے کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
پاکستان سے ڈراموں میں کام کرنے کی آفر آئے تو
میں اس پر ضرور غور کروں گا ۔
یہ بہت اچھا ہوگا، اور میں خوش ہوں گا۔
پاکستانی ڈراموں میں ہمارے لیے بھی ایک بہترین موقع ہوگا۔
انشاء اللہ، ان پیشکشوں کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں،
ٹھیک ہے۔میں ضرور کام کرنے پر غور کروں گا ۔

پاکستان اور ترکیہ کی مشترکہ پروڈکشن صلاح الدین ایوبی پر تبصرہ کرتے ہوئے ترک پاک ویمن فورم کی ہیڈ شبانہ ایاز کو جلال آل نے بتایا کہ
ڈرامہ صلاح الدین ایوبی سیریز ایک بہت ہی خوبصورت ترکیہ اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔

یقیناً دیگر پاکستانی پراجیکٹس کی شوٹنگ بھی ترکیہ میں ہو سکتی ہے۔ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کو بھی دعوت دیتے ہیں۔

ہمارے دوست اور پروڈیوسرز جو ترکیہ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں یا ترکیہ میں پروجیکٹ شوٹ کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک میں محفوظ طریقے سے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔

صلاح الدین ایوبی منصوبہ ایک بہت ہی خاص منصوبہ ہے۔ یہ غزہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے موجودہ حالات کے ساتھ بھی موافق ہے، جو بدقسمتی سے نسل کشی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم پاکستانی ناظرین کے مشکور ہیں۔
میرے خیال میں بہت سے منصوبوں پر کام کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بھی شوٹنگ کی جا سکتی ہے۔
میں خاص طور پر اپنے برادر ملک، اپنے پاکستانی بھائیوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے برادر ملک ترکیہ میں مختلف شعبوں میں بہت سے منصوبے بنا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم آپ کی زیادہ سے زیادہ رہنمائی کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہمیں صلاح الدین ایوبی ڈرامے کی کامیابی پر بہت خوشی اور فخر ہے۔ ہم خاص طور پر مسٹر ایمرے کونک کو سلام کرتے ہیں، جو ترکیہ میں ہمارے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں۔
پاکستان کے پروڈیوسر ڈاکٹر کاشف انصاری اور ڈاکٹر جمشید علی شاہ بھی اس کامیاب پروڈکشن پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
صلاح الدین ایوبی سیریز ترکیہ اور پاکستان کا مشترکہ کام تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقافت، آرٹ اور سیریز موثر ہیں، اور گزشتہ 5-6 سالوں میں بھائی چارہ مضبوط ہوا ہے اور مشترکہ پروڈکشنز بن رہی ہیں۔
میں مستقبل پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ دیگر پروجیکٹس میں ہمیں اپنے پاکستانی اداکار بھائیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا۔
ہمارے ساتھ اس وقت ایک پاکستانی اداکار نورالدین بھائی ہے جو عبدالقادر جیلانی کا کردار ادا کر رہا ہے۔
۔ یہ بہت اچھا ہوگیا ہے، یہ یقیناً نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔
ہم اپنے ان بھائیوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ترکیہ میں پروڈکشن کے کاروبار میں کام کرنا چاہتے ہیں۔

ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے سوال کا جواب دینے ہوئے انہوں نے کہا کہ

پاکستان اور ترکیہ دونوں ممالک کے بھائیوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ اپنی مروجہ تاریخ کی تحقیق کریں۔
ترکیہ اور پاکستان کی دوستی کی عمومی بنیاد کہاں سے شروع ہوئی۔ اس کی تحقیق کریں۔
ہماری ہزار سالہ دوستی ہے۔ مغلیہ سلطنت کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے۔مغلیہ سلطنت دراصل ترکوں کی ہی سلطنت تھی۔
جمہوریہ ترکیہ کے قیام کے عمل میں پاک برادران کی حمایت۔ علامہ محمد اقبال اور مہمت عاکف ایرسوئے کی دوستی، علامہ محمد اقبال کی ترک ریاست کی حمایت، جمہوریہ کے بعد کے دور میں، انگریزوں کے قبضے سے ہماری آزادی کے دوران، اور ہماری جنگ آزادی کے عمل کے دوران، ان کی زبردست حمایت۔ بہت سی مشترکہ چیزیں ہمارہ دوستی کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔
پاکستانی نژاد عبدالرحمن پشاوری، جنہوں نے ، انادولو نیوز ایجنسی کے قیام میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس کی روح کو سکون ملے۔ ان کی قبر استنبول میں ہے۔
ایسی بہت سی خاص شخصیات ہیں جو کہ عثمانی ریاستوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ میرے خیال میں، مثال کے طور پر، بہت سے لوگ ہیں. بہت اونچے درجے کے لوگ ہیں جنہیں سلطان عبدالحمید ثانی کے دور میں “آفندی” کا خطاب دیا گیا تھا۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان میں تعصبات اور دوریوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم دونوں ممالک پہلے سے ہی دوست ہیں۔ ہم بھائی ہیں۔ ہم برے وقت کے دوست ہیں، لیکن ہمیں اچھے وقت میں دوست بننے کی ضرورت ہے۔ تجارتی اور انسانی ہمدردی دونوں لحاظ سے ایک دوسرے کے پاس جانا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے۔ میں اپنے پاکستانی بھائیوں کو خاص طور پر یہ بتاتا ہوں۔ میں اس پر روشنی ڈالتا ہوں اور پوچھتا ہوں۔ پیارے بھائیو جب آپ ترکیہ کی سیر کے لیے آئیں تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی قبروں پر جا سکتے ہیں جنہوں نے امداد بھیجی، جو ہمارے آباؤ اجداد بھی ہیں، جو بلقان کی جنگوں، جنگ آزادی، طرابلس اور کیلی پولی کی جنگوں میں شہید ہوئے اور وہ سابق فوجی تھے۔ ہمارے ہلال اور ستارے کے جھنڈے کے لیے، آپ کے آباؤ اجداد نے قیمت ادا کی۔ مادی لحاظ سے بہت بھاری قیمتیں ادا کیں۔ اپنی اندرونی پریشانیوں کے باوجود پاکستان نے ہماری مدد کی۔
بھائی چارے کے یہ بندھن ایسے ہیں جو ہمیں مزید متحد کر سکتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کشمیری مسلمان جو بھارت کے جبر اور غلامی کا شکار ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے تو جلال آل نے شبانہ ایاز کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ
جی ہاں، مسئلہ کشمیر واقعی ایک افسوسناک صورتحال سے دو چار ہے۔ ہم یقیناً ممالک کی آزادی اور ان کے اچھے حالات کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن خاص طور پر آزاد کشمیر، پاکستان کا حصہ، اور جموں و کشمیر، ہندوستان کے قبضے میں ہے، وہاں ایک قابل ذکر مسلم آبادی ہے، ایک سنجیدہ مسلم کمیونٹی۔ ہم نے ان پر ہونے والے مظالم کا سنا، ہم غمگین ہیں۔ بدقسمتی سے، ہم میڈیا سے سنتے ہیں، ہم دیکھتے کرتے ہیں، ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ وہاں ہمارے مسلمان بھائی جبر میں ہیں، حقیقی طور پر آزاد نہیں ہیں، اور یہ کہ وہاں پاکستان کی سرزمین پر انڈیا کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ ہم وہاں اپنے بھائیوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ بحران کسی نہ کسی طرح حل ہو جائے گا، امید ہے کہ معاہدے کے ساتھ، رواداری کے ساتھ، انسانی جنگ کے بغیر، بغیر کسی تنازعے کے، سفارتی نقطہ نظر سے، وہاں کے مسلمان اور پاکستانی عوام کی اپنی مرضی، اپنی خواہشات کے مطابق حل تلاش کریں گے، چاہے ریفرنڈم کے ذریعے ضروری ہو، ہم اللہ سے فیصلے کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم اپنی ریاست کے کشمیر پر موقف کو سراہتے ہیں اور ہم اس صورتحال میں پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں۔
ہم خطہ کشمیر خصوصاً آزاد کشمیر کے ساتھ فلاحی کاموں کے لیے کچھ ارادے اور منصوبے رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہو جائے گا، انشاء اللہ۔

ترک عوام خصوصاً نوجوانوں کو جلال آل نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ
میرے ترک بھائیو، جیسا کہ میں نے پہلے بھی میں بتایا ہے، جا کر پاکستان کے جغرافیوں کو دیکھیں، میرا مطلب ہے، صرف ایک جگہ کا سفر نہ کریں۔ اسلام آباد جائیں بلوچستان ، لاہور ،کراچی جائیں ۔ جا کر سمندر سے لے کر کوہ ہمالیہ تک کا جغرافیہ دیکھو۔ خود تجزیہ کرو، اپنے فیصلے خود کرو
پاکستان بہت ہی خوبصورت، بہت ہی خاص جغرافیہ والا ملک ہے۔ آپ خود ہی جاکر دیکھ لیں کہ پاکستانی عوام کتنے گرمجوش ہیں، وہ ترکیہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اور دوستو، بلاشبہ دوری سے اختلاف پیدا ہوتا ہے، لیکن اتحاد سے طاقت جنم لیتی ہے۔
اس لحاظ سے، پاکستان میں وہ جغرافیے ہیں جن کی ہمارے آباؤ اجداد نے حفاظت کی، ۔انہیں دیکھنا اور سفر کرنا فائدہ مند ہے۔ اس کے علاوہ جو پاکستانی بھائی یہاں آتے ہیں، جو کاروبار یا تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کریں۔ ہر کمیونٹی میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن خوبصورتی دیکھنا، اچھائی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
ترکیہ اور پاکستان آپس میں بھائی ہیں۔ یہ لازوال تعلق ہے۔۔۔ پاکستان ترکیہ بھائی چارہ، زندہ باد۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.