چاک پہ کوزہ رکھوں خاک بناؤں واپس
نبیل احمد (میرپور۔آزاد کشمیر)
غالباً یکم جولائی 2023 کو میرے آفس بوائے نے مجھے بتایا کہ ایک لڑکا چند دنوں سے آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔ اس وقت بھی آیا ہوا ہے ۔ میں نے پوچھا ملوایا کیوں نہیں، آفس بوائے نے جواب دیا وہ بہت چھوٹا ہے اس لیے اسے واپس بھیج دیتے رہے ۔ میں نے اسے اندر بلوایا ۔ ایک کم عمر لڑکا السلام علیکم کہہ کر پورے اعتماد سے میرے سامنے آ کھڑا ہوا ۔ میں نے اسے سر سے پاؤں تک ایک نظر دیکھا اور بیٹھنے کو کہا ۔ تھوڑی دیر بعد جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ سر ، میرا نام عبدالوہاب ہے ، میری عمر 14 سال ہے اور میں پائلٹ اسکول میں پڑھتا ہوں ۔ ابھی میں نے ایلیمنٹری بورڈ میں آٹھویں کا امتحان دیا ہے ۔ میں آپ کے پاس ایک ماہ تک کام کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا ابھی تم بہت چھوٹے ہو ، اتنے چھوٹے بچوں کو ہم کام نہیں دیتے ۔ جب میں نے انکار کیا تو اس نے کہا میں آپ کے پاس اپنے والد کی اجازت سے کام کرنا چاہتا ہوں ۔ اس پر میں نے اسے اگلے دن والد کے ساتھ آنے کا کہا ۔ اگلے دن وہ اپنے والد کے ساتھ آ حاضر ہوا ۔ والد نے ساری باتوں کی تصدیق کی جو اس نے ایک دن پہلے مجھے بتائی تھیں ۔ میں نے اسے کام کرنے کا چانس دے دیا ۔ 4 جولائی اس کا ہمارے پاس پہلا دن تھا اور 4 اگست آخری دن ۔ اس ایک ماہ کا ملخص یہ ہے کہ :عبدالوہاب اپنی عمر سے کچھ آگے کی چیز تھا ۔ وہ ہر وقت نئ باتوں کی تپ و تلاش میں جُٹا رہتا تھا ۔ کھوج اور جستجو اس کی گُھٹی میں تھی ۔ وہ بہت متجسس تھا ۔ اس کے اندر خواہشوں کا ایک انبار تھا جو اسے ہردم بے چین رکھتا تھا ۔ یوں اس کے جذبوں کی دنیا اضطراب کے سمندر پر ڈولتی اور ہچکولے لینے لگتی تھی ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کی متلون مزاجی میں ٹھہراؤ پیدا کرکے اسے فہم وفراست کے کناروں تک لے جایا جاتا ۔ وہ تخلیقی ذہن رکھتا تھا ۔ وہ خود سے سوچتا تھا اور اپنے عزائم کو demonstrate بھی کرنا چاہتا تھا ۔ وہ اتنی چھوٹی عمر میں ریڈیو پر بھی گیا ۔ وہ اناؤنسر بھی بننا چاہتا تھا ۔ میں نے اس کا ایک کلپ بھی سنا تھا ۔ ہاں میں مانتا ہوں اس کے اندر بہت پوٹینشل تھا جسے ترجیحات قائم کرکے ایک خاص رخ دینے کی ضرورت تھی ۔عبدالوہاب کے بابا اسے یہ توازن اور نیا محور دینے میں کامیاب نہیں رہے ورنہ عبدالوہاب آج بھی ہمارے درمیان ہوتا ۔ یہ قصور فطرت کے سر تھوپا جا سکتا ہے نہ مقدر ہی کو کُوسنے دیے جا سکتے ہیں ۔وہ ایک نئی دنیا میں بس رہا تھا ۔ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہ سکا ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنا ذہن مرتب نہیں کر سکتے ۔ ڈرائیونگ تو اس نے سیکھ لی تھی لیکن جو خطرناک کھیل وہ کھیلنا چاہتا تھا اسے باپ سے پوشیدہ رکھنا بھی ضروری تھا ۔ وقوعہ بتاتا ہے کہ اس کھیل کے لیے اس نے فخر ابراہیم کو بھی ہمنوا بنا لیا تھا ۔ اس کھیل کے مظاہرے کے لیے عید کا دن طے تھا ۔
اس کی خواہش رہی ہے وہ جو کام بھی کرے چاروں کھونٹ اس کے نام کا ڈنکا بجے لیکن وہ نہیں جانتا تھا آج اس کی زندگی کی تانت پر ایسی چوٹ پڑنے والی ہے جس کے بعد اس کا سازِ حیات یومِ محشر تک خاموش ہو جائے گا ۔میں انتہائی دکھ کے ساتھ یہ تلخ حقیقت لکھنے پر مجبور ہوں کہ اس حادثے میں مرنے والے کی نادانی اور والدین کی غفلت کو پورا دخل حاصل تھا ۔ انسان کی ذہنی پرواز کا بھی جواب نہیں یہ اپنی ذہنی رفتار سے بھی تیز دوڑنا چاہتا ہے ۔ عبدالوہاب ڈرائیونگ میں ابھی نو آموز تھا اس نے 100 کلومیٹر سے زائد رفتار سے کار دوڑائی اور کار بے قابو ہو کر قلابازیاں کھاتی دیوار سے جا ٹکرائی ۔ وہاب کے چہرے پر ظاہری طور پر کوئی زخم نہ تھا ۔ میرا اندازہ ہے اسٹیئرنگ کے دباؤ سے اس کا دم گُھٹ گیا اور موقع پر ہی جان نکل گئی ۔ وہاب کے والد نے ڈاکٹر سے موت کا فوری سبب جاننے کی شاید کوشش بھی نہیں کی ۔ میں یہ بات پھر دہرائے دیتا ہوں ، قوانین فطرت اٹل ہیں ، موت محض اس لیے اپنا پروگرام مؤخر نہیں کر سکتی کہ اس کے ساتھ بازی کھیلنے والے کی عمر ابھی جینے کی ہے ۔ اسباب کی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ۔ جو موت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے وہ اسے لے کر اپنی راہ پر چل پڑتی ہے پھر وہ ٹلنے والی نہیں ۔ ایسے حادثات جن کا سبب ہم خود ہوتے ہیں ۔۔۔ ایسے ہی لکھی تھی ۔۔۔ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے ۔ ایسے معاملات و حادثات میں ہم دنیاوی قانون کے سامنے بھی جوابدہ ہیں اور اللہ کے حضور بھی ۔بچوں کو اپنے شوق کی تکمیل میں اس بات کی کیا پرواہ تھی کہ دنیا کے عبدالوہاب اور خرم ابراہیم زندہ رہیں یا مریں ، موت سے بے پرواہ ہوکر انہیں بس اپنا شوق پورا کرنا تھا ۔ اِدھر عبدالوہاب نے پاؤں کے دباؤ سے گاڑی کی سپیڈ کو 100 تک اٹھایا اُدھر فرشتہِ اجل نے اڑان بھری اور آکر اُس کی رگِ جاں پر ہاتھ رکھ دیا ۔ گاڑی بے قابو ہو کر الٹی اور قلابازیاں کھاتی ایک بیکری کی دیوار سے جا ٹکرائی ۔ دھماکے کی آواز سن کر ایک ہجوم امڈ آیا ۔ عبدالوہاب کار سے باہر نکلا ، کھڑا ہوا لیکن لڑ کھڑا کر گِر گیا ۔ یوں بھری جوانی میں اُس کی پُرجوش نادانی اس کی موت کا کارن ہو گئی ۔ موت عمر کا لحاظ نہیں کرتی ۔ وہ نہیں دیکھتی کہ مرنے والے کی عمر ابھی جینے کی امنگ سے بھری ہے ۔ ابھی اس کی خواہشیں اور پروگرام ادھورے ہیں ۔ اس کا کام بس مار دینا ہے ۔ اس لیے نہیں کہ اس کے لیے ۔۔۔ موت کا وقت مقرر ہو گیا ہے ۔۔۔ محض اس لیے کہ اس حادثے کی ضربِ شلاق کے بعد مقرہ وقت تک اس کا زندہ رہنا تعذیب کا ایسا دورانیہ ہے جسے انسانی ابلاغ سے نہیں صرف زبانِ وحی سے بیان کیا جا سکتا ہے ۔ نزع اور جان کنی کی اس تعذیب سے چھٹکارہ دینے کے لیے تب رحمتِ ربانی وقت سے پہلے اس کی سانس کی ڈوری کاٹ دیتی ہے ۔ جسے ہم ۔۔۔ اللہ کی مرضی ۔۔۔ کہہ کر ایک دوسرے کی ڈھارس بندھاتے ہیں ۔ یہ موت سے پہلے موت ہے جس کے لیے یہاں اور وہاں ہر دو جگہ باز پُرس کا نظام قائم ہے ۔ یہاں کے بودے نظام میں ہم اپنی غفلت کو ۔۔۔ اللہ کی مرضی ۔۔۔ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں لیکن وہاں ہمارا ہر عمل میزانِ عدل میں تُل کر رہے گا ۔تب وہاں اِس بے وقت موت کا حساب بہر طور چکانا پڑے گا ۔یہ المیہ ابھی ختم نہیں ہوا نہ اس وقت تک ہوگا جب تک والدین ، معاشرہ اور انتظامیہ مل کر اس کے سدباب کی کوئی تدبیر نہیں کرتے ۔ یاد رکھیے جسے تدبیر نہیں آتی وہ تقدیر پہ روتا ہے ۔ جب تک ہم اس کے مطابق دنیائے عمل میں قدم نہیں رکھتے ، آنے والی نسل بھی موجودہ نسل کے جوتوں میں پاؤں ڈالتی رہے گی اور یوں حادثات کا سلسلہ ابھی تھمتا نظر نہیں آرہا ۔عبدالوہاب کے والد سجاد بٹ محکمہ احتساب بیورو کے ڈرائیور ہیں جو اِن دنوں ڈپٹی کمشنر بحالیات میرپور کے ساتھ ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔ ان سے مظفرآباد کے زمانے سے شناسائی ہے ۔ خرم کے والد ابراہیم سے اس وقت کا تعلق خاطر ہے جب ہم سٹاف کالونی رہتے تھے ۔ وہ یو پی ایس اور سولر پینل کا کام کرتے ہیں اور اس میدان میں خوب نیک نام ہیں ۔عبدالوہاب اور خرم ابراہیم ہم عمر ، ہم جماعت اور باہم دوست ہیں ۔ خرم کو میں نے ہسپتال کے بستر پر صرف فوٹو میں دیکھا ہے تاہم عبدالوہاب کا تعارف ذرا تفصیل طلب تھا جو ابھی جاری ہے ۔ہمارے عہد کے بچے عید پر ون وہیلنگ اور کار ڈرفٹنگ کرکے اپنی خوشیوں میں من چاہا اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ وہ لمحات ہیں جن کا والدین کو علم نہیں ہوتا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس خوش گمانی میں رہتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کا سب پتہ ہے ۔۔۔ واللہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔۔۔ اگر ساری دنیا کے والدین کو اپنے بچوں کا۔۔۔ سب پتہ ہے ۔۔۔ تو پھر خرابی کہاں پر ہے ۔۔۔ یہ حادثے کیوں ہوتے ہیں ۔ یہ نوخیز بچے ننگی سڑک پر کیوں مرتے ہیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر یہ عید پر ہی کیوں مرتے ہیں ۔ ڈیم اور نہر میں کیوں ڈوبتے ہیں ۔ والدین کیوں خوش ہوتے ہیں کہ ان کا کم عمر بچہ موٹر سائیکل تو کیا کار بھی چلا لیتا ہے ۔ وہ اپنے ہاتھوں اپنے پیارے بچوں کو موت کے جھولے میں بٹھاکر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہونے والا ۔ وہ نہیں جانتے بچے thrill seeker ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے ذھن کی رفتار سے تیز دوڑنا چاہتے ہیں ۔ وہ کار کی سپیڈ بڑھا کر دوٹائروں پر گول گھمائیوں سے ٹائروں کی چیخیں نکال کر اپنے من کے ہیجان کو آسودہ کرنا چاہتے ہیں ۔ موت ایسے لمحوں کی تاک میں رہتی ہے ۔ جونہی ذرا سی چُوک ہوئی موت زندگی کی شہ رگ پر اپنا پنجہ گاڑھ دیتی ہے ۔ جس نے بھی موت کے ساتھ بازی کھیلی وہ اس کے ہاتھوں ہمیشہ چِت ہوا ۔۔۔ یہ بات والدین خود سمجھنے اور اپنے بچوں کو باور کرانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں ۔کار ڈرفٹنگ ۔۔۔ car drifting ۔۔۔ کے وقت ٹائروں کی رگڑ سے جو ہیجان انگیز ۔۔۔ thrilling sound ۔۔۔ آواز پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے آج کے نوجوانوں کے اضطراب کو تسکین دیتی ہے ۔ وہ اس سے fascinate ہوتے ہیں اور ایسا بار بار کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ دراصل موت سے کھیلنا ہے ۔ گزشتہ آٹھ دس برسوں میں ہونے والے ایسے حاثات کا تناسب خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔ اسی شہر میں دوسال قبل کرائے پر لی گئئ کار پر دو نوجوانوں نے عید ہی کے دن عجوہ بیکری اور سیو اینڈ سلیکٹ کے نزدیک علامہ اقبال روڈ پر کار ڈرفٹنگ کرتے ہوئے بجلی کے پول سے جا ٹکرائے ۔ ایک موقعہ پر ہلاک ہوا اور دوسرا بری طرح زخمی ہوا ۔ کچھ ایسا ہی حال ون وہیلنگ کرنے والوں کا ہے ۔ چار پانچ برس قبل میرپور شہر کے 6 نوجوان جڑی کس سے میرپور کی جانب اکٹھے وہیلنگ کرتے ہوئے عین عید کے دن جان کی بازی ہار گئے تھے ۔ ون وہیلنگ اور کار ڈرفٹنگ دونوں ہی خطرناک اور جان لیوا کھیل ہیں ۔ انتظامیہ کو اس پر نہ صرف پابندی رکھنی چاہیے بلکہ ایسے نوجوانوں سے ان کے بائک اور کاریں ضبط کر لینی چاہیں اور والدین کو بلا کر سرزنش کے ساتھ جرمانے بھی کرنے چاہئیں ۔ سختی کے ساتھ والدین سے باز پُرس کی جائے کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کو جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہیں کو گاڑی سڑک پر لے جانے کی اجازت کیوں کر دی ۔کار ڈرفٹنگ کرنے والے بڑے مشاق ڈرائیور ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس خاص specification کی سپورٹس کاریں ہوتی ہیں ۔ وہ مرکز مائل اور مرکز گریز قوتوں کے درمیان ایک خاص تناسب پیدا کرکے کار کو skid off ہونے سے بچاتے اور خود کو محفوظ رکھنے کی تدبیر کرتے ہیں ۔ پھر بھی حادثات ہو جاتے ہیں ۔ جن کو موقعہ پر ہی فوری طبی امداد دینے کے لیے ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہوتی ہے ۔ اس لیے وہاں اموات کی شرح ہمارے ہاں کی نسبت صفر کے قریب ہے ۔ہمارے ہاں ابھی ہیلتھ سروسز کے شعبے اتنے منظم اور فعال نہیں ہوئے کہ ہر مریض کو انفرادی طور پر ڈاکٹر توجہ دے سکے ۔۔۔ یہی حال ہمارےہسپتالوں میں دیگر شعبہ جات کی طرح شعبہ حادثات کا ہے ۔ اُس وقت وہاں کوئی ڈاکٹر دستیاب نہ تھا جب مضروب کو ہسپتال لایا گیا ۔ صرف زیر تربیت پیرا میڈکس موجود تھے جو زیادہ تجربہ اور سوجھ بوجھ نہ ہونے کے باعث مضروب کی سنگین صورت حال کا درست اندازہ نہیں لگا سکے ۔ اور کہنے کو ۔۔۔ مضروب ڈاکٹر کی غفلت سے جان کی بازی ہار گیا ۔۔۔ وہاب خود ہی موت سے بازی کھیل کے آیا تھا ۔ والدین اپنی نادانی کا رخ ڈاکٹر کی غفلت کی طرف موڑ کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔
ہمارے ہاں اپنی کوتاہی کو ڈاکٹر کی غفلت سے منسوب کردیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر کی غفلت تو زخمی کے ہسپتال پہنچنے پر سامنے آئے گی ۔ بچے کے زخمی ہوکر ہسپتال پہنچنے میں کس کی غفلت تھی ۔ اس کا بھی صرف جواب ہی نہیں حساب بھی دینا پڑے گا ۔
شاید و باید کی تکرار کے باوجود کہ انہیں اپنے بچوں کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے ، ادھورا اعتراف ہے ۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بچوں کے بے شمار مشاغل والدین سے اوجھل رہتے ہیں ورنہ یہ حادثات کیوں ہوتے ۔ چُوک اور غفلت کے بطن سے ہی حادثات جنم لیتے ہیں ۔
میں تمام تر احتیاط کے باوجود وہ جواز ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں جس سے میں یہ اخذ کرتا کہ بچوں کے باب میں والدین سے غفلت نہیں ہوئی ۔ یہ دونوں بچے اپنے کندھوں پر موت اٹھائے پھر رہے تھے لیکن والدین ان کے لیے سب اچھا کے گیان دھیان میں تھے ۔
عبدالوہاب میرے ساتھ موضوع بدل بدل کر بہت سی باتیں کیا کرتا تھا ۔ وہ اپنے پروگرام مجھے بتایا کرتا تھا ۔ میں اس کی قبر پر کھڑا ہوں لیکن آج اس کی قبر بے صدا ہے ۔ میں اس کے جنازے میں شامل ہوا ۔ اس کے جنازے میں بچے بھی تھے ۔ اس کا چہرا دیکھتے وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا ، اللہ کے سپرد کیا اور چلا آیا ۔ یہ وقتِ وداع ابھی تک میری آنکھوں میں مجسم ہے ۔
وہ بچہ جس نے بڑا ہو کر اپنے خاندان کا ان داتا اور اپنے باپ کا دست و بازو بننا تھا وہ پندرہ برس کی عمر میں عید کے دن خاک اوڑھ کر قبرستان میں روزِ محشر تک جا سویا ہے ۔ عبدالوہاب اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا ۔ چوڑا چکلا ، کڑیل اورخوب رو نوجوان ۔ ماں اس کی جدائی میں زندگی بھر کُر لاتی رہے گی اور اس کے باپ کا یہ اندوہ آخری سانسوں تک سسکیاں لیتا رہے گا ۔ یہ ایک ایسی طولانی شامِ غریباں ہے جس کا کوئی انت نہیں ع
خاموش ہے گاؤں تیری موت کے دن سے
پیڑوں پہ پرندے بھی تیرے بعد نہ بولے