اخلاقی قلت، تہذیبی بدعت جانوروں سے
رخسانہ رخشی
ہمارے بدبودارمعاشرے میں اچھے اعمال انجام دینے والوں کی قلت ہے اس کے برعکس بدافعال انجام دینے والوں کی بہتات ہے۔
تہذیبی بدعت آپ کو قسم قسم کی ہر سوسائٹی میں نظر آئیں گی اور اقسام ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ بدباطن، بدتمیز ، بدتہذیب، بدخصال، بددماغ، بد ذات، بدصورت و سیرت اور بدقماش آپ کو پاکستان کے ہر شہر و دیہات میں ملیں گے جو بدمست طاقت کے نشے میں چور انسان تو انسان جانوروں سے بھی بدسلوکی و ظلم کی حد پار کر دیتے ہیں۔
جانور چاہے ہاتھی یا اونٹ ہو انسان کے تابع ہی رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ ایک بڑے جانور کو ایک چھوٹا بچہ بھی تابع کر سکتا ہے ورنہ ناتواں انسان کی اوقات نہیں کہ وہ بڑے بڑے قوی ہیکل اور طاقتور جسم وحبثہ کے مالک جانوروں کو سدھا سکیں۔ بعض جانور انسانوں کیلئے کس قدراہم ہیں اوریہ رونق بھی ہیں دنیا کی اور تواور بعض جانوروں کا ذکر بھی قرآن میں خاص طور پر آیا ہے۔
ہر جانور سے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اسکے ساتھ کوئی نہ کوئی خیروابستہ ہوتی ہے۔ آپؐ نے بعض جانوروں کے صفات حمیدہ اور ان کے معنوی و اخلاقی خوبیوں کے حامل ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ حسن و سلوک کا حکم دیا ہے۔ گھوڑے کےمتعلق فرمایا کہ روز قیامت تک خیر وابستہ ہے۔
اونٹ اپنے مالک کیلئے عزت کا باعث ہوتا ہے۔ بکری میں بھی برکت ہی برکت ہے، مرغ کی یہ اہمیت کہ وہ نماز کیلئے جگاتا ہے لہذا اسے گالی نہ دو۔اونٹوں کی اسلام میں اہمیت سے انکار نہیں، ایک شخص نبیؐ کریم سے عرض کرتا ہے کہ ’’یا رسول اللہ میں اپنے حوض میں پانی بھرتا ہوں اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کیلئے مگرکسی دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے اس کا اجر ملے گا؟ تو آپ نے فرمایا ’’ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے‘‘۔
یعنی کسی کی پیاس بجھانا ان کا گلا تر کرنے کا کس قدر ثواب ہے۔ جانوروں کیساتھ بدسلوکی کو آپؐ نے عذاب و عتاب اور سزا کی وجہ جانااور انتہائی درجے کی معصیت اور گناہ قرار دیا اور انسانی ضمیر جھنجھوڑنے والے سخت الفاظ استعمال فرمائے۔
جب ہمارے مذہب نے کسی بھی زی روح پر ظلم و ستم کو عظیم گناہ قرار دیا ہے تو یہ بات پھرہر مسلمان جانتا ہی ہوگا کہ جانوروں سے بدسلوکی پر عذاب و سزا سہنا پڑتا ہے۔ تو پھربہت سےمسلمان اس آگاہی سے لاعلم کیوںہیں؟ وہ ظالم شخص ، وہ وڈیرہ ایک بے زبان ، معصوم جانورپربہیمانہ تشدد کیوں کر گیا؟
تیز دھار آلے سے اسکی ٹانگ کاٹنے پر اسکے ہاتھ نہ کانپے کہ میں کیوں عذاب الہٰی کو آواز دوں۔ ہاتھ میں اگر تیز دھار آلہ بھی آجائے تو انسان بہت ڈرتا ہے کہ کہیں یہ استعمال نہ ہو جائے تو فوراً ہاتھ سے نکال دیا جائے۔ ایسے ظالم لوگوں کو قرار واقعی سزا ملنا چاہئے۔
ایک معصوم اونٹ ایسے بہیمانہ تشدد پر اپنی آواز و زبان میں کیسے درد سے آہوں اور چیخوں سے آسمان تک لرز گیا ہوگا۔ایسے بیدرد ظالم لو گ بے زبان جانوروں کیساتھ ایسا سلوک کرتےہیں تو انسانوں کیساتھ کیا کرتے ہونگے۔ ذرا تفتیش کا دائرہ کار بڑھایا جائے تو اس ظالم وڈیرے کے جانے کتنے عقوبت خانے ہونگے اور وہاں کیسی کیسی ظلم کی داستانیں ہونگی۔
اسکی زمین پراونٹ کا جانا اسے سیخ پا کر گیا توانسانوں کو تو وہ بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہوگا۔جس زمین کو اور اسکی فصلوں کو وہ اپنے لئے دنیا کا سامان اور مال و مطاع سمجھ رہا ہے اسی زمین میں سبھی کو دفن ہونا ہے یہی زمین ایسے وجود کوکیسے برداشت کریگی جس کے سینے پر یہ بیٹھ کر یہ ظلم کی داستانیں رقم کرتا رہا۔
مسلمانوں کا مذہب رحم، محبت، بھائی چارہ، صلہ رحمی، اخلاق و تہذیب اور امن سے رہنے کا سبق دیتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں لوگوں کے مزاج میں ہردم اور دن بہ دن جبر وجبلت اور جارحانہ پن بڑھتا جا رہا ہے ایسے پاگل مزاج لوگوں کیلئے جیل خانے اور پاگل خانوں میں ہونا چاہئیں تاکہ دوسرے لوگ سکون واطمینان سے رہ سکیں۔
ہم سے اچھے تو اہل یورپ ہیں جو انسانوں سے زیادہ بے زبان جانوروں سے محبت کرتے ہیں ان کے آرام و کھانے پینے کی فکر رکھتے ہیں۔ انسانوں سے لیکر جانوروں تک کیلئے فنڈز جمع کرتے ہیں تاکہ کہ انکی خوراک و علاج پر خرچ کیا جاسکے۔ یورپین لوگ تو گدھے پرسامان لادھنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے جیسا کہ ایشین ممالک میں ہوتا ہے۔
آہ! بے چاری بے زبان اونٹنی ، جو پیغمبروں کی شان رہی ہے وہ کیسے درد میں کراہ رہی ہوگی۔ اتنی تکلیف اسے شاید گردن پر چھری چلنے پرنہ ہوکہ وہ ذبح ہو کر روح پرواز کرجاتی ہے مگر ٹانگ کٹنے کی تکلیف اسے علاج ہونے پر بھی رہے گی۔ اونٹ خدا کی خاص مخلوق ہے جس میں بے پناہ خصوصیات ہیں۔
اللہ نے اس کے پائوں بھی خاص بنائے ہیں جو مٹی میں نہیں دھنستے،یہ صحرائی جانور جو بھوکا پیاسا رہ کر بھی واویلا نہیں مچاتا اورمالک کا وفادار ہی رہتاہے۔