امی جان کا باورچی خانہ اور علاج بذریعہ غذا

37

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
دنیا کی تہذیب کے رنگ ڈھنگ بدل رہے ہیں ۔ہماری نئی اور پڑھی لکھی نسل کو آج ماوں کی باتیں اور مشورے کچھ زیادہ اچھے نہیں لگتے ہیں ان کے خیال میں ان کی ماں کو آج کی ترقی یافتہ زندگی کا کچھ پتہ نہیں ہے۔جب میں یہ سنتا ہوں کہ امی جان آپ کو کیا پتا ہے ؟ اب دور پہلے جیسا وقت نہیں رہا تو میں خود سوچنے لگتا ہوں کہ کیا واقعی ان عمر رسیدہ ما وں کو اب بچوں کی مرضی اور طریقے پر چلنا چاہیے کیو نکہ جدید تعلیم اور انٹر نیٹ کے ترقی یافتہ دور میں ان ماوں کی اہمیت اور معلومات دقیانوسی کہلاتی ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کی ماں نے کسی یونیورسٹی سے نہیں بلکہ زندگی کے مصائب کی ہوا کھا کر اتنے تجربے حاصل کئے ہوے ٔ ہیں جو دنیا کی کوئی ڈگری انہیں فراہم نہیں کر سکتی ۔آج کی ماں کپڑے کے لنگوٹ کی جگہ پیمپر استعمال کرتی ہے تاکہ باربار دھونا نہ پڑے ٔ اور سمجھتی ہے کہ وہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اپنے بچے کی پرورش کررہی ہے ۔یہ پیمپربسا اوقات تو پورے پورے دن بچے کو لگا رہتا ہے اور بچہ کئی مرتبہ انہیں خراب کرتا رہتا ہےاور مائیں بے فکر ہوتی ہیں کہ کوئی بات نہیں پیمپر تو لگا ہوا ہے ۔ جبکہ ہماری ماں کپڑے کی چھوٹے چھوٹے درجنوں لنگوٹ تیار کرتی اور ہر دفعہ بچے کا لنگوٹ نہ صرف بدلتی بلکہ بچے کو دھو کرصاف کرنے کے بعد نیا لنگوٹ بدل دیتی اور پرانہ فورا” دھودیتی ۔ہمارے صحن میں کپڑے خشک کرنے کے لیے ایک رسی بندھی ہوتی تھی جو دھلے ہوے لنگوٹوں سے بھری رہتی تھی ۔۔مجھےیاد ہے کہ ہماری ماں رات کو بھی اٹھ کر بچوں کے یہ لنگوٹ کئی مرتبہ بدلتی تھی ۔جس کے لیے سردیوں میں گرم پانی کا ڈبہ ہر وقت چولہے پر رکھا رہتا تھا۔ کیونکہ شاید وہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی ۔ورنہ آج کی طرح سرشام ہی بچے کو پیک کرکے ڈال دیتیں ۔آج بچوں کی آۓ دن بیماریاں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے دور کے بچے بیمار کیوں نہیں ہوتے تھے ۔ڈاکٹروں کے پاس چکر کیوں نہیں لگانے پڑتے تھے ۔شاید اس لیے کہ ہماری مائیں آدھی ڈاکٹر تو خود ہی ہوتی تھیں ۔ وہ بچوں کے قدموں کی آہٹ سے ان کے دلوں کے وہم وگمان تک جان لیتی تھیں ۔یہ خدا کا عطا کردہ وہ علم ہے جو پورا دن نوکروں کی طرح بچوں کی خدمت کو شعار بناکر ان کی رگ رگ سے واقفیت عطا کر تا ہے ۔ہر بیماری میں ماں کا آنچل سکون دیتا ہے اسکی ایک تسلی اور ساری رات گود میں سر رکھ کر دعا دینا کہ اللہ میری عمر بھی تمہیں لگا دے ۔بچے کے جسم میں توانائی بھر دیتی ہے ۔جب میں نئی نسل کو بتاتا ہوں کہ ہم سخت سردی میں ننگے سر ننگے پیر ایک قمیض پہنے بغیر مفلر اور سویٹر دوڑتے پھرتے تھے اور سخت گرمیوں میں برف کے لیے ہوائی چپل پہنے ننگے سر لائن میں کھڑے رہتے تھے ۔ہمیں نہ تو گرمی لگتی تھی اور نہ سردی کا احساس ہوتا تھا تو نئی نسل یقین نہیں کرتی ۔بھلا سردی اور گرمی ہو اور اسکا احساس نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے ؟ کبھی کبھی میں خود بھی سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوتا تھا ؟ تو اب خیال آتا ہے کہ ہماری ماں تو علاج بذریعہ غذا کی بہت بڑی ڈاکٹر تھی ۔وہ ہمارے لیے ایسی متوازن خوراک کا انتظام کرتی تھی جو سردی اور گرمی کے خلاف مدافعت پیدا کرتی ہو ۔مجھے یاد ہے کہ جونہی گرمی کا آغاز ہوتا ہماری ماں شور مچا دیتی کہ پیاز خریدنی ہے اور پھر کئی من پیاز خرید کر گھر کے کونے میں جمع کرلیتی کہتے ہیں کہ پیاز ،ہرا دھنیا ،پودینہ اور ادرک ہماری ماں کی سب سے بڑی کمزوری ہو اکرتا تھا ۔ہر چیز میں ان چیزوں کا بے تحاشا استعمال لازم ہوتا تھا ۔گرمی کے دوران ہر کھانا پیاز کے بغیر نہ ہوتا ۔پھر ہر دوپہر کھانے کے ساتھ کچی پیاز بھی ضرور ہوتی جسے آج کل سبز سلاد کہا جاتا ہے ۔گرمیوں میں وہ آلو پیاز ،پیاز گوشت ،خشخاص پیاز،آلو اور ہری پیاز ،بھنڈی پیاز ،توری پیاز ،کدو پیاز ،ٹینڈے پیاز ،کدو پیٹرے پیاز،پیاز لیموں اور ہری مرچ کی چٹنی ،ٹماٹر پیاز کی چٹنی ،پیاز چنے کی دال ، اروی پیاز ، دال چاول ،چنے کے چاول ،آلو چاول تیار کرتیں اور ساتھ ساتھ ناشتے میں پراٹھے پر پابندی لگا کر مسی روٹی ،تندوری روٹی ،دیسی گھی کی چپڑی روٹی ،بناتیں اور دہی کے ہمراہ کھلاتیں ۔آج بھی مجھے امی کی بنائی ہوئی خشخاص پیاز بہت یاد آتی ہے ۔ہرے دھنیے اور پودینہ کی لہسن والی چٹنی آج کسی فائیو سٹا ہوٹل میں بھی اتنی مزیدار نہیں ملتی ۔ جو وہ پورا دن پتھر کی سل پر پیس کر بناتی تھیں مگر اسے بنانے کی محنت کرنے والے کہاں سے لاوں ؟ ہماری خوراک میں کچی اور پکی لسی ،لیموں کی شکنجبین ، گنے کا رس ، جو کا ستو وہ بھی گڑ والا ، تربوز کا شربت ،شربت روح افزا ء بادام کا شربت ، تخم ملنگا کے ساتھ شامل ہوجاتا ۔وہ بتاتی تھیں کہ گرمیوں میں سب ٹھنڈی سبزیاں اور سردی میں سب گرم سبزیاں قدرت خود ہی پیدا کردیتی ہے ۔میٹھے میں گرمیوں میں ٹھنڈی کھیر ،گاجر کھیر ،جو کا دلیہ ،گنے کے رس کی کھیر ،ہوتی تھی جونہی آم ،تربوز اورفالسہ بازار میں آتا ان کا جوس اور شربت پینے کو ملتا ۔ گرمی کے عام فروٹ کے ساتھ جامن ،شہتوت ،خربوزہ ،پھلوں میں شامل ہوجاتا تھا۔
پھر جونہی سردی کی آمد کا اعلان ہوتا ہماری ماں کی ترجیحات ایکدم بدل جاتیں۔اب سبزی سے زیاد ہ گوشت پکنے لگتا ،گوشت آلو ،سادہ گوشت ،گوشت کی پلاو ،کریلے گوشت ، کوفتے ،کباب کھنڈیاں ،بڑیاں ،پھر پوری گرمی میں تو وہ ان تلی ہوئی چیزوں سے مکمل پرہیز کرتیں لیکن سردی آتے ہی تلی ہوئی چیزوں پر عروج آجاتا ۔کڑہی پکوڑے ،دہی پکوڑے ،پکوڑوں کا سالن ،رائتہ پکوڑے ،ایک جانب سرسوں کے تیل اور بیسن کا استعمال بڑھتا تو دوسری جانب سری پاۓ ،کلیجی گردے ،اوجھڑی پکنے لگتی گوشت کی پلاو پکتی ۔ گڑ کی چاے ٔ اور پراٹھے ،تلی ہوئی روٹیاں ،ناشتے میں آجاتیں ۔انڈے اور مرغی کا استعمال بڑھ جاتا ۔ گرمیوں کی پیاز کی طرح امی جان کی سردیوں کی کمزوری تل ہوتے تھے وہ کالے اورسفید تل منگواتیں اور پھر تل شکری ،تلوں کے لڈو ۔گڑ آٹے ،السی اور تل کے لڈو دیسی گھی میں تیار کرتیں اور روز صبح ناشتے میں ایک لڈو ملتا پھر سونے سے پہلے یہ لڈوکھا کر سوتے ۔میٹھے کی صورتحا بھی بدل جاتی اب گڑ کے چاول ،زردہ ،،میٹھے ٹکڑے ،مختلف سوجی میدے اور آٹے کے حلوے ،بنتے جن میں خشک میوے کی تعدا د بہت زیادہ ہوتی ۔امی جان سوجی ،چنے کی دال اور آٹے کا خشک حلوہ تیار کرتیں جو پوری سردی تازہ رہتا تھا ۔اباجی میوے وا لا گڑ بنواتے اور ہر بچے کو کھانے کے بعد ایک ڈلی ضرور ملتی ۔سوہن حلوہ ریاست بہاولپور کی سوغات ہوا کرتا تھا ۔سردیوں میں گھر گھر بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا ۔اسے سوغات کے طور پر ایک دوسرے کو بھیجا بھی جاتا تھا ۔ پھلوں میں مالٹے سنگترے ،کینو ،گرے فروٹ ا باجی بوریوں میں بھر کر لاتے ۔جس کو نزلہ ہوتا امی جان اسے خوب کھلاتیں ۔سردی کی رات کو تمام بچے باورچی خانے میں چولہے کے گرد چٹائی پر بیٹھ جاتے پھر جب رضائی میں گھستے تو مونگ پھلی کھانے کو ملتی مگر مونگ پھلی کھاکر پانی پینے کی اجازت نہ تھی ۔ کبھی کبھی سخت سردی میں سب بچوں کو ایک ایک انڈاہ ابال کر دیا جاتا اکثر وہ ہر بچے کو شہد کا ایک چمچہ بھی چاٹنے کو ساتھ دیتیں ۔ کہتے ہیں غذایت نمو کی زندگی اور صحت کے تحفظ کو برقرار رکھنے کے لیے غذائی اجزاء کا متوازن استعمال ہوتا ہے ۔جسے ماں کی بے لوث محبت چارچاند لگا دیتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایک ماں اپنے ڈھیر سارے بچوں کے لیے یہ سب کام کیسے کر لیتی تھی؟ جبکہ باورچی خانے کے علاوہ بھی گھر کے بہت سے شعبے سنبھالنے ہوتے تھے ۔نہ تو وہ کوئی جن تھیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ تھا ۔اس کمزور سی ماں کی اصل طاقت دراصل اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کے علاوہ کچھ نہ تھی ۔آج کی سائنس بچوں کے لیے متوازن غذا کی ضرورت پر تو بہت زور دیتی ہے مگر یہ نہیں بتاتی کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.