شجرکاری فرض ہو چکی ہے

15

تحریر: سہیل بشیر منج

1960

کی دہائی میں چین کا ایک بڑا حصہ ریگستان ہوا
کرتا تھا اتنے بڑے چین میں صرف بارہ فیصد حصہ ہی قابل کاشت تھا ان دنوں وہاں طوفانوں کا راج تھا جب بھی طوفان آتا ان کی چھوٹی بڑی تمام سڑکیں ریت میں دب جاتیں شہری علاقوں میں ہر طرف ریت ہی ریت ہوتی طوفان کے بعد ان کی انتظامیہ کے لیے سڑکوں اور شہروں کی صفائی درد سر بن جاتی ہلکی سی آندھی بھی شہریوں کو سانس کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی جب ان کی عوام کی پریشانیوں حد سےبڑھ گئیں تو ان کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلے کا حل صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ریگستانوں کو جنگلات میں تبدیل کر دیا جائے
1979
میں انہوں
نے اپنے ریگستانوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصے میں شجرکاری شروع کر دی سب سے پہلے ان پودوں کا انتخاب کیا گیا جو کم پانی میں بھی افزائش پا سکیں انہوں نے سب سے پہلے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ کو اس تحریک میں شامل کیا ایک ترتیب کے ساتھ سکولوں کو ایک دن کے شجرکاری ٹور پر صحراؤں میں لے جایا جاتا وہ سارا دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ پودے لگاتے بڑی بڑی پائپ لائنیں بچھا کر انہیں پانی دینے کا انتظام کیا گیا چند سالوں کی محنت سے ان کا پہلا مرحلہ کامیاب ہو گیا اور ان کے صحرا کا پہلا حصہ سرسبز ہو گیا
پھر انہوں نے صحرا کے دوسرے اور سب سے بڑے حصے کا انتخاب کیا جہاں پر انہوں نے حیرت انگیز طریقہ اپنایا انہوں نے بارہ لاکھ خرگوش صحرا میں چھوڑ دیے اور انہیں خوراک کے لیے پودوں کے بیچ دیے جاتے خرگوش آہستہ آ ہستہ سارے صحرا میں پھیل گئے وہ پودوں کے بیچ کھاتے مخصوص جگہوں سے پانی پیتے اور سارے صحرا میں پھرتے رہتے ان کے فضلے سے صحرا کا دوسرا اور سب سے بڑا حصہ چند سالوں میں ہی سر سبز ہو گیا
اگلے چند سالوں میں بے شمار پودے اگے اور وہ حصہ بھی صحرا سے جنگل میں تبدیل ہو گیا
تیسرے مرحلے میں انہوں نے ایسے پودوں کا انتخاب کیا جو بغیر پانی کے زندہ رہ سکتے تھے انہوں نے ان کے بیچوں سے سپرے تیار کی اور جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے صحرا کے تیسرے حصے میں سپرے کر دی ان کا یہ تجربہ بھی کامیاب ہو گیا اور چند سالوں میں صحرا کا تیسرا حصہ بھی سر سبز ہو گیا اسی طرح انہوں نے صرف پندره سالوں میں سارے ریگستان کو جنگلوں میں تبدیل کر دیا جس سے ان کے ملک کی فضا بھی صاف ہوئی اور انہوں نے اپنی قوم کو سیلابوں اور بیماریوں سے بھی کافی حد تک محفوظ کر لیا
گزشتہ دس دنوں سے پاکستان میں گرمی کی ایک ایسی لہر شروع ہوئی ہے جس نے درجہ حرارت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور بتانا ضروری سمجھوں گا کہ یہ لہر عارضی نہیں ہے لیکن ابھی تک ہماری حکومت کی توجہ اس طرف نہیں گئی جو کہ ایک افسوسناک امر ہے آج تک ہماری حکومتوں نے شجرکاری کی فوٹوگرافی اور نعروں کے سوا کچھ نہیں کیا لیکن اب اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا میں جناب وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے فارغ بیٹھے محکمہ جنگلات کو مصروف کیا جائے چین کی طرز پر یہاں بھی شجرکاری کو ایک ٹاسک بنا کر شروع کیا جائے
سب سے پہلے مرحلے میں ہمارے شہری علاقوں کی انتظامیہ پرائیویٹ سوسائٹیوں کو نوٹس جاری کر ے انہیں الٹی میٹم اور وارننگ جاری کرے کہ اگلے چھ ماہ میں ان کے پاس جتنی بھی خالی جگہ ہے درختوں سے نہ بھری تو انہیں جرمانے ہوں گے ٹی ایم اے اور ایل ڈی اے یہ قانون بنا دے کہ جب تک دو درخت فی گھر نہ لگائے جائیں مکان کا نقشہ پاس نہیں ہوگا
محکمہ نہر ریلوے اور ہائی ویز پاکستان میں سب سے زیادہ رقبہ رکھنے والے محکمے ہیں انہیں پابند کیا جائے کہ تمام نہروں کے ساتھ ریلوے کی خالی جگہوں اور ہائی ویز موٹرویز کے ساتھ پڑی لاکھوں ایکڑ زمینوں کو پودوں سے بھر دیں ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی انہی محکموں کی ہو ہمارے پاس دریاؤں کے ساتھ ہزاروں ایکڑ خالی زمینیں پڑی ہیں انہیں بھی جنگلات سے بھر دیا جائے خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایک بہت بڑی ساحلی پٹی موجود ہے وہاں بھی ناریل اور پام آئل کے درخت لگا دیے جائیں ہمارے سرکاری دفاتر سکول کالجز میں جتنی جگہ خالی ہو درختوں سے بھر دی جائے ہمارے پاس لاکھوں کلومیٹر چھوٹی سڑکیں موجود ہیں ان کی دونوں اطراف بھی شجرکاری کی جائے ہمارے پاس قبرستانوں جنازگاہوں عید گاہوں مدرسے ہسپتال یونین کونسل کے دفاتر تھانے جیلیں جہاں بھی کہیں جگہ موجود ہمارے شہر گاؤں قصبوں انڈسٹری اسٹیٹس روہی نالے سرکاری کھالوں کے اطراف میں بھی درخت لگا دیے جائیں پہلے سے موجود جنگلوں میں چوروں نے کافی جگہ خالی کر دی ہے انہیں نئے سرے سے شجرکاری کے لیے استعمال کیا جائے ہمارے پہاڑی علاقوں جو لاکھوں ایکڑوں پر محیط ہیں انہیں بھی نئے درختوں سے بھر دیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ ہم اور ہماری آ نے والی نسلیں سرسبز اور خوبصورت پاکستان کی مالک ہوں گی جس سے گرمی کی شدت میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے گی
ہمارے بہت سے لوگوں نے بڑی بڑی زمینوں کو چاردواری کر کے چھوڑا ہوا ہے انہیں چاہیے کہ وہاں پر قیمتی لکڑی کاشت کریں جن میں چندن، صندل ہود اور بہت سے ایسے درخت لگائیں جن کی لکڑی پرفیوم سازی میں استعمال ہوتی ہے اس سے لاکھوں روپے کمائے جا سکیں گے اور پاکستان کو ایک نئی اور منافع بخش صنعت مل جائے گی
جناب وزیراعلی گزارش ہے کہ آ پ ایک بڑے زرخیز صوبے کی حکمران ہیں ابتدا آ پ کریں اگر میرے اللہ کریم نے چاہا تو اس نیک کام میں سارا پنجاب آ پ کے ساتھ ہوگا بے شک اس کے لیے پچا س روپے فی کس فنڈ ریزنگ بھی کر لیں
اپنے گاؤں کی حد تک میں نے گزشتہ برس چھ ہزار پودے تقسیم کیے تھے اگر ہر شخص حسب توفیق اس کام کو فرض سمجھ کر پورا کرنا شروع کر دے تو بہت جلد ہم موسمیاتی تبدیلیوں پر غالب آ جائیں گے انشاءاللہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.