عوامی مطالبات

34

تحریر :خالد غورغشتی

ہمارے سالانہ قومی بجٹ میں جہاں سرکاری سکولوں کےلیے ہر سال مفت کُتب اور وظائف دینے کا بہترین نظام موجود ہے ، وہیں فی سبیل اللہ قران پاک باٹنے کا بھی کوئی انتظام کیا جائے ۔ کیوں کہ اس وقت ہماری تباہی کی سب سے بڑی وجہ قران مجید سے دوری ہے ۔ آج ہر مسلک نے اپنی اپنی تشریحات کے لیے پبلیشر ادارے تو کھول رکھے ہیں لیکن کوئی ایسا ادارہ آج تک نہیں دیکھا ، جو بغیر ہدیہ لیے قران پاک کی تقسیم کرے ۔ ویسے اگر ہدیہ کی بجائے اگر قران کریم کی ملک بھر میں مفت تقسیم کا بندوبست کیا جائے تو کئی جعلی پیروں ، عاملوں اور تعویز فروشوں سے ہماری عوام کی جان چھوٹ سکتی ہے ۔ ان لوگوں نے گلی گلی میں تعویز دھاگے اور دم کے نام پر اس قدر تباہی مچا رکھی کہ بندہِ ناچیز بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ ویسے بھی قرآن کریم کو مخلوق خدا کی ہدایت اور پوری دنیا میں نافذ کرنے کے لئے اُتارا گیا. اسے گلے میں لٹکانے ، قبروں پہ سجانے اور میت کے سرہانے رکھنے کی بجائے ہمیں عملی زندگی میں نافذ کرنا چاہیے ۔

بعض اوقات سوشل میڈیا پر بڑی اچھی اچھی چیزیں آجاتی ہیں ، ایک صاحب نے گزشتہ دنوں مجھے ایک تحریر بھیجی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان میں کمائی کا آسان ترین ذریعہ بغیر تعلیم ، تجربے ، محنت کے کہیں بھی چھوٹا سا آستانہ بنا کر بیٹھ جائیں ، بڑے بڑے لوگ آپ کے پاس بیماریوں کے علاج اور گھریلو جھگڑوں سے نجات ، بڑی بڑی مشکلات کے حل کےلیے تشریف لائیں گے ۔ یوں آپ کا دھندا چند ہی دنوں میں ساتویں آسمان کو چُھو رہا ہوگا ۔ اتنا وکیل ، انجینئر ، پروفیسر ، ڈاکٹر ، ٹھیکے دار اور تاجر نہیں کما سکتے ، جتنا یہ تعویز دھاگا کرنے والے کما لیتا ہے ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر ولی کامل کے مزار پر قرآن کریم کی تلاوت ہوتی اور ان کے مشن کے مطابق دین کا پھیلاؤ کیا جاتا ہے لیکن افسوس وہاں تو شریعت کے خلاف سرعام امور سر انجام دے کر اُنھیں اس قدر بد نام کیا گیا کہ آج کوئی بھی شخص مزار پر فاتحہ کےلیے حاضر ہو تو کچھ لوگ عجب کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں عوام مطالبہ کرتی ہیں کہ مزارات پر پھیلی ہوئی خرافات کا فوری تدارک کرکے ایسا نظام مرتب کیا وہاں ہر کام شریعت کے مطابق ہو ، دین کے باغی لوگوں سے مزاروں کو پاک کیا جائے۔

پیاز ،ٹماٹر اور آلو بیچنے والوں کو روزانہ ریٹ لسٹ دی جاتی ہے کہ وہ اس اس ریٹ پر بیچیں، مگر پرائیویٹ اسپتال ، پرائیویٹ اسکول مافيا کو لگام کیوں نہیں ڈالی جاتی ، پراپرٹی مافیا کو ریٹ لسٹ کیوں نہیں دی جاتی؟

یقین کریں ، جتنا مذکورہ بالا شعبوں میں عوام کی کھال اُتاری جا رہی ہے ، سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔

ان دنوں ہماری سرکار نے اعلان کر رکھا ہے کہ کوئی بھی پرائیویٹ و سرکاری سکول چھٹیوں میں اپنی سرگرمیاں جاری نہ رکھے لیکن پرائیویٹ سکولوں کی چُپکے چپکے سرگرمیاں سب کےلیے حیران کن ہیں۔ ان پرائیویٹ سکولوں میں پہلے ماہانہ فیس ، پھر کتابوں کے نام پر اور آخر میں کھانے پینے کی اشیا کے نام پر کروڑوں روپے غریب عوام سے بٹورے جاتے ہیں ۔ عوام بے چاری بجلی کے بل دے ، گیس کے بل دے ، مکان کا کرایہ دے یا ان پرائیویٹ سکول کی ہر ماہ ہزاروں روپے فیس بھرے ؟

یوں ہی پرائیویٹ اسپتالوں میں اس قدر علاج مہنگے ہیں کہ غریب آدمی عمر بھر کی جمع پونجی لگا کر بھی اپنا مکمل علاج نہیں کروا سکتا ۔

اب آتے ہیں آج کل کے سب سے خطر ناک شعبے پراپرٹی کی طرف ۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے یہ شعبہ اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب پراپرٹی مافیاز سے کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں ۔ بسا اوقات یہ مافیا ایک کی جگہ دوسرے اور تیسرے بل کہ درجنوں لوگوں کو بیچ دیتا ہے ۔ یوں یہ ایک ایک فرد سے کروڑوں روپے ہتھیا لیتے ہیں۔ ان مافیاز کو پتا ہے کہ ایک دفعہ ہمارے ہاں پراپرٹی کا کیس چل پڑا تو نسل در نسل ختم نہیں ہوتا ۔ اس لیے جعلی پیروں کے بعد پراپرٹی مافیا کا یہ کام مکمل تحفظ کے ساتھ عروج پر ہے۔

پاکستانی عوام مطالبہ کرتی ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ پراپرٹی مافیاز سے عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت ہو۔

اسی طرح بعض لوگ آن لائن کاروبار کے ذریعے روزانہ کہیں نہ کہیں سادہ لوح عوام کو لوٹ رہے ہیں ۔ ان کی بھی بیخ کنی کی جائے۔
فلاحی کاموں کے نام پر بھی زور و شور سے لوٹنے کا سلسلہ جگہ جگہ جاری ہے۔ ایک فرد کسی کے گھر بنانے، کاروبار کرنے اور بیماریوں کے علاج کےلیے پیسہ لوگوں سے لیتا ہے وہ آدھے خود رکھتا آدھے ان پہ خرچ کر دیتا ہے ۔ ہمارے بھئی خود کیوں نہیں ضرورت مندوں کو دیتے کیا وہ اپاہج ہے ۔ فلاحی کاموں کے نام پر یہ دھندا کب تک چلتا رہے گا ؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.