نوجوان نسل اور سول سروس

35

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت کرنا پوری قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس میں کمی بیشی کی صورت میں اس قوم کو بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پوری دنیا میں اسی لئے ان قوموں نے ہی ترقی کی ہے جنہوں نےاس سلسلے میں جامع پروگرام بنایا۔ پلاننگ کے لحاظ سے شعبہ تعلیم کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ اور اسی لئے بجٹ میں سب سے زیادہ رقم اسی مد میں مختص کی جاتی ہے۔ اس سے ہٹ کر پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں برابر کام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں آبادی بہت بڑھ گئی ہے اور اب ہم کو نوجوان نسل کے حوالے سے انتہائی گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ویسے تو پبلک سیکٹر بھی بڑا کام کررہا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کے تحت بھی بے شمار ادارے کام کررہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وسائل کی کمی کے سبب سینکڑوں بچے اور بچیاں اپنی تعلیم برقرار نہیں رکھ سکتے ہیں اور مزید یہ کہ بیروزگاری نے لوگوں کو بچوں کی تعلیم سے اچاٹ کردیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بچے ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے سڑکوں پر روزگار کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کچھ تو ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس لئے پوری قوم کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو ہم محتاط قوم ہیں اور بعض امور میں تو کچھ زیادہ ہی محتاط ہو گئے ہیں۔ جہاں اخراجات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ہم مٹھی بند رکھتے ہیں اور جہاں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں خزانے کے منہ کھول دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشی صورتحال دیکھ کر اہل عالم کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں اور ہم ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔ کاش کوئی ہمیں سمجھائے ہمیں پکڑ کر ٹھیک ٹھاک جھنجھوڑے ہمارے دماغوں کی کھڑکیاں کھولے اور ہماری آنکھوں پر چڑھے بے حسی اور ہٹ دھرمی کے ککرے کھرچ کر صاف کرے۔ کاش باتیں تیرونشتر بن کر ہمارے دل ودماغ میں کھب جاتیں اور ہماری سوچ میں بھونچال آجاتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام کرے گا کون۔ ہم سب تو چور ہیں فرق صرف اتنا ہے کوئی آنے کا چور ہے اور کوئی سولہ آنے کا چور ہے اور اس ساری صورتحال کو ہماری نوجوان نسل بچشم خود دیکھ رہی ہے۔ انہیں اپنے آباواجداد سےکوئی نسبت ہو یا نہ ہو وہ اس سلسلے میں ضرور ہمارااثر قبول کرے گی۔ گذشتہ دنوں الامین اکیڈمی نے فلیٹیز ہوٹل میں ایک نشست کا انتظام کیا جس میں جو بچے سول سروس کے لئے سلیکٹ ہوئے ہیں یا جوسول سروس کے امتحان کی تیاری کررہے ہیں اور جو لوگ بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں ان کی گفتگو کروائی گئی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔ مجموعی طور پر بڑی باتیں ۔ کم وسائل والے بچوں کی تعلیم میں ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا گیا اور الامین اکیڈمی کے کردار کو بھی سراہا گیا۔ محترم سہیل وڑائچ معروف صحافی اور اینکر نے نوجوان نسل کی اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ معروف دانشور اور کالم نگار محترم مجیب الرحمن شامی کی فکر انگیز اور مبنی برحقائق گفتگو نے ہم سب کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے بڑے درد انگیز لہجے میں سب سے پہلے کچھ سوالات کئے جن کا لب لباب یہ تھا کہ کیا بچوں کو پڑھا دینا ہی کافی ہے۔ کیا نوجوان نسل کا سول سروس جوائن کر لینا آج کے مسائل کا واحد حل ہے کیا ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بڑھا دینا ہی کافی ہے۔ کیا اداروں میں سیاسی مداخلت سے کوئی اصلاحی کام ہو رہے ہیں۔ کیا پالیسی میکنگ میں مڈل کلاس کا کوئی کردار ہے۔ کیا ہم آج اپنے اکابرین کے طریقے پر عمل کرسکتے ہیں اور پھر انہوں نے ایک تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ بلاشبہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر نوجوان نسل کی تعلیم کے سلسلے میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اور ہر سال کافی تعداد میں یہ بچے سول سروس میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ یہ وہ افسر شاہی ہے جس نے پاکستان کو اپنے قدموں پہ کھڑا کیا تھا اور پھر سول سروس اصلاحات کا ہمیں خیال آگیا اور یوں سول سروس تتر بٹیر ہو گئی۔ ایک وقت تھا جب اس ملک کے پہلے سیکریٹری جنرل اور وزیراعظم چوہدری محمد علی کو کامن ویلتھ کی ایک کانفرنس میں اپنی بیوی کے ہمراہ شرکت کرنا پڑی تو اس وقت کے وزیراعظم کے پاس اپنی بیوی کے ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے اور اس وقت کا قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ ازاں بعد مذکورہ سابق بیوروکریٹ اور سابق وزیر اعظم بیمار ہوتے ہیں تو ان کے پاس علاج کے لئے باہر جانے کے پیسے نہیں تھے اور قانون بھی اس سلسلے میں خاموش تھا۔ صرف اتنی فیور دی گئی کہ ان کی پنشن سے ان کو ادھار دیا جائے۔ پھر حالات نے کروٹ بدلی اور قانون بول پڑا اور پھر سرکاری اخراجات پر پورے پورے جہاز بھر کر سرکاری دوروں پر بھیجے گئے اور پھر عزیزو اقارب تک کے بیرون ملک تھوک کے حساب سے علاج کروائے گئے۔ خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا۔ آج صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہم مین الحیث القوم اس حد تک بدنیت اور بددیانت ہو چکے ہیں کہ ہم اپنی مراعات اور آمدن کو بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے اخراجات کو کم کرنے کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا تعلق مڈل یا لوئر مڈل کلاس سے ہے۔ کسی بھی افسر سے آج اس کے والد کے بارے میں پوچھ لیں اول تو اس کا باپ ہی مزدور یا کسان ہوگا نہیں تو اس کا دادا پردادا ضرور ہوگا لیکن آج کا افسر اپنا لائف سٹائل بالکل تبدیل کر چکا ہے اس کا رویہ کسی بھی جاگیردار یا سرمایہ دار سے کم نہیں ہے۔ اس کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس سے کھل کر بات نہیں کر سکتا اس کو کہتے ہیں طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ اس سارے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مخیر ادارے جہاں کم وسیلہ والے بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں وہاں ان کی تربیت کا خصوصی خیال رکھا جائے اور محترم مجیب الرحمن شامی نے پیر ضیاء الحق نقشبندی مہتمم الامین اکیڈمی سےکہا کہ وہ اردو کی کلاس کا بھی اہتمام کریں اور اخلاقیات پر بھی تمام طلباء و طالبات کو خصوصی درس دیا جائے تاکہ ہم آج کے نوجوان کو ایک اچھا انسان بنا سکیں۔ مقابلے کی امتحانات میں لینگویج کا آپشن دیا جانا چاہیئے اور ایسا دنیا کے سارے ممالک میں ہورہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس امتحان میں شرکت کرسکیں۔ قابلیت اور لیاقت صرف اور صرف انگریزی زبان کی محتاج نہیں ہوتی۔ پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی ایک درخشندہ تاریخ ہے۔اب پچیس ہزار سکولوں کو پرائیویٹائز کرنے کی پالیسی بننے جارہی ہے۔ اس پر حکومت کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ سوچ بچار ہی سے آگے بڑھنے کے راستے کھلتے ہیں اور قومیں اپنی منزل پر پہنچ کر دم لیتی ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.