لمبی مسافت

37

تحریر: الیاس چدھڑ

سات دہائیاں بہت بڑا لمبا سفر ہے کیونکہ یہاں بات ہے سات یا اٹھ کے قریب ہونے دہائیوں کی یعنی پون صدی کے گزرنے کے دن اور یہ پون صدی جس طرح گزری اپ سب کے سامنے ہیں اس پون صدی سے لے کے اب تک جتنی بھی جنریشن ائی اور اگے بھی اتی رہیں گی انہوں نے اپنی انکھوں سے یہ دیکھا ہے انہوں نے اپنی روح تک محسوس کیا ہے انہوں نے اس بون صدی میں بدلتے ہوئے ہر رویے کو دیکھا ہے یہاں تک کہ اچھے برے حالات بھی دیکھے ہیں اور بہت سے اپنی زندگیوں کے امتحانات بھی دیکھے ہیں اپ امتحانات میں اس چیز کو شامل کر سکتے ہیں کہ جو مجموعی طور پر وطن عزیز میں ہونے کے باوجود نہ مل پائے تو اس سے بڑا امتحان کوئی نہیں ہوتا یعنی کہ ہر چیز ہماری دسترس میں ہو دسترس وہ چیز ہے کہ اپ کے علاقے میں اپ کی حکومت میں وہ چیز دستیاب ہو لیکن اپ کی رعایا عوام کی دسترس میں نہ ہو تو اس کو کہتے ہیں چیز تو ہے لیکن اس تک پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے پر رعایا عوام ایک ایسی چیز ہے کہ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا منتخب بادشاہ ہو منتخب اسمبلی ممبران منتخب امیر ان کا کام ہے تو جب وہ وعدہ بھی کریں کہ ہم اپ کو ہر چیز مہیا کریں گے اپ ہمیں ووٹ دو اپ ہمیں منتخب کر کے مسند اقتدار پر بٹھاؤ ہم اپ کو سب کچھ میسر کرائیں گے تو تب عوام رعایا یقین کر لیتی ہے ٹھیک ہے تو وہ چیز جو ہوتی ہے وہ عوام حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے وابستہ وہ ہے ان کی نسلیں ہیں یعنی کہ ضروریات زندگی کی چیزیں تو جب اپ ضروریات زندگی کو چیز بھی دیکھ رہے ہیں لیکن اس کو حاصل نہیں کر سکتے تو جب اپ اس چیز کو حاصل نہیں کر سکتے تو پھر اپ کا کیا حال ہوتا ہے وہ صرف اپ ہی جانتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو نا کسی جائز خواہش کا پورا نہ ہو نا تو یہ نہیں ہونا چاہیے پون صدی سے یہ ہوتا ا رہا ہے اب بس ہونا چاہیے اب یہ کھیل ختم ہونا چاہیے اب جو ہو گیا سو ہو گیا اس کو بھول کر نیا سویرا تلاش کریں نئی سوچ پیدا کریں عوام کو اور اس کی ضرورتوں کو دیکھیں کہ جب ہمیں امیر منتخب کیا گیا ہے تو ہم ہی کیوں ہم سے وابستہ جو رعایا ہے وہ کیوں نہ سہی اسے بھی احساس ہو کہ ہم ہیں ہماری قدر ہیں ہمارا وزن ہے تو تب جا کر سات یا اٹھ دہائیوں کا حساب برابر ہوگا بات کبھی بھی مخالفت سے منافقت سے جھگڑے سے نہیں بنتی بات ہمیشہ بنتی ہے مل بیٹھنے سے اب جو کھینچا تا نی ہم نے اتنے طویل عرصے سے پکڑی ہوئی ہے اس کھینچا تانی کا خاتمہ ہونا چاہیے ہم سے وابستہ لوگوں کے مسائل حل ہونے چاہیے ایک طرف ہم تو جی رہے ہیں لیکن رعایا کو عوام کو جینے کا سامان بھی تو میسر کرنا چاہیے اج ہم بڑی بڑی کرسیوں پر بڑے بڑے تختوں پر بیٹھے ہیں بڑے بڑے محلوں میں بٹھانے والا کون ہے یہی عوام یہی رعایا تو اس رعایا کے لیے کچھ ایسا ہو جائے کہ تاریخ میں زندہ اپ رہیں نسلیں صدیاں اپ کو یاد رکھیں کہ کوئی تھا کہ جس نے اپنے دن رات کا چین چھوڑ کر اپنی رعایا کے لیے وہ کام کیا کہ رہتی دنیا تک لوگ اس کی مثالیں دیں اپ بھی چاہتے ہیں کہ تاریخ ہمیں یاد کرے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے تو اپ رعایا کو عوام کو سب کچھ مہیا کریں جو عوام کی ضرورت ہے اور جو اپ مہیا کر سکتے ہیں کب تک خالی وعدے اور خالی برتن اور خالی جیب اور خالی دامن لیے یہ لوگ مارے مارے پھرتے رہیں گے کب ان کی سنوائی ہوگی اور کب مشکلات سے ان کی رہائی ہوگی اور کب یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں اپنے اپنے خاندان میں خوشحال ہوں گے خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہوں گے اور اپنے بادشاہوں کی رعایا پر سلسلہ شفقت کو یاد کر کر کے ان کے لئے دعائیں مانگ رھے ھوں گے کہ حاکم ھو تو ایسا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.