عید کی آمد آمد،حکمران بیرون ملک،عوام تاجرمافیا کے رحم و کرم پر

48

تحریر: رشید احمد نعیم
رمضان المبارک کے آخری لمحات گزر رہے ہیں۔عید کی آمد آمد ہے ۔حکمران طبقہ سعودیہ میں عبادت میں مصروف ہے۔عبادت میں مصروف اشرافیہ کی تصاویرتسلسل سے میڈیا کے لیے جاری ہو رہی ہیں ۔شاہ سے سے زیادہ شاہ کےو فادار صحافی ایڑی چوڑی کا زور لگا رہے ہیں کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ حکمران ِ عوام کے غم میں مرے جارہے ہیں اوردن رات مقدس مقامات میں بیٹھ کر پاکستان اور پاکستانی عوام کی فلاح بہبود، معاشی خوش حالی ، سلامتی اور بہتر مستقبل کے لیے رورو کر دعائیں کررہے ہیں ۔ان کی دعائوں کی بدولت عوام بہتر انداز میں عید گزار پائیں گے۔ راقم الحروف اس بات کا زیادہ علم نہیں رکھتا کہ ان حکمرانوں کی دعائوں اور عبادات میں کتنا اثر ہو گا ،اس سلسلے میں تو کوئی عالم دین ہی روشنی ڈال سکتا ہے کہ ان کے ساتھ اللہ کیا سلوک کرتا ہے ، ان کی دعائیں شرف قبولت پاتی ہیں یا واپس لوٹ آتی ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ چونکا دینے والا ضرور ہے کہ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پستا دیکھ کر بلکہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرکےمہنگائی میں پھنسا کرکس منہ سے رب کعبہ کے حضور حاضر ہو رہے ہیں ،وہ رب جو ستر مائوں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے اس کی مخلوق روٹی کو ترس رہی ہے ، ان کے گھروں میں بھوک و افلاس کا ننگا ناچ ہو رہا ہے ، بچے باپ کی حالت زار دیکھ کر عید کےلیے نئے کپڑوں کی فرمائش کی بجائے اندر ہی اندر اپنی حسرتوں کا قبرستان بنا رہے ہیں ، اپنی معصوم خواہشات کا گلہ گھونٹ کر چہرے پہ مصنوعی اطمنان کی کیفیت دھار کر کہہ رہے ہیں کہ ابو! اس بار ہم فلاں کپڑے استری کرکے پہن لیں گےاور جوتا تو ابھی چند ماہ پہلے ہی لیا تھا اسے سرف سے دھو کر چمکا لیں گے اور باپ اپنی پدرانہ چیخوں اور آنکھوں میں آنے والے آنسوئوں کوزبردستی روک کر جیتے جی مرنے کی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے اور دل ہی دل میں اپنے خالق کے حضور سوال کررہا ہوتا ہے کہ میرے خالق! یہ سارے امتحانات ہمارے لیے اور تمام تر مراعات اشرافیہ کے لیے ہی کیوں ؟کیا خلفائے راشدین نے بھی ایسی عیدیں منائی ہیں ؟ پیغمبراعظم تو عید والے دن یتیم بچے کی حالت دیکھ کر برداشت نہ کرے پائے،جب تک اسے نہلا دھلا کر نئے کپڑے زیب تن نہ کروائے عید کی نماز ادا نہ کی ۔یہ کیسے حکمران ہیں ؟ یہ کیسے حاکم ہیں ؟ اپنی رعایا کو بھوک و افلاس کی وجہ سے بلکتا چھوڑ کرچلے ہیں عبادت کرنے ؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں جب قوم مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے ؟ مہنگائی بھی ایسی کہ ہر بندہ اس سے پناہ مانگنے پہ مجبورہے، عوام کومعاشی مشکلات میں دیکھتے ہوئے بھی انہیں سکون کیسے آتا ہے ؟ کیسے یہ گہری نیند سو لیتے ہیں ؟لاکھوں روپے کے لباس زیب تن کرکے کس طرح اطمنان محسوس کرتے ہیں یہ لوگ؟کاش کوئی ان کو بتائے کہ ان کی عدم موجودگی اور تعطیلات عید کے باعث انتظامیہ کے گھروں کو جانے کے بعد مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ہے ،عید الفطر کی آمد میں ایک دن باقی ہے ۔ انتظامیہ سمیت اکثر و بیشتر متعلقہ افسران اپنے اپنے علاقوں کی جانب کوچ کر گئےہیں۔ لوگ گراں فروشوں کے ہتھے چڑھ گئےہیں۔ گراں فروشوں نےشہریوں کی چمڑی کندچھری سے ادھیڑنا شروع کر دی ہے۔ حکومتی رٹ بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ عوام عید کی خوشیوں سے محروم اورکھانے پکانے سے بھی مجبور دکھائی دے رہی ہے۔ رہتی کسر پھول فروشوں نے پوری کر دی۔ غریب اپنے پیاروں کی قبروں کی زیارت سے بھی محروم نظر آتے ہیں، سبزی و فروٹ کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ جبکہ دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں ہیں۔جبکہ شہر وں میں ہو کا عالم ہے۔ انتظامیہ سرے سے غائب، گراں فروشوں کا راج دکھائی دیتا ہے۔ سبزی و فروٹ منڈی سمیت گنجان آباد علاقوں میں قائم دکانوں، ریڑھی بانوں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ عملاً گراں فروشوں کا راج دکھائی دیتا ہے۔ قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر دکاندار ریڑھی بان نے اپنا ہی ریٹ مقرر کر رکھا ہے۔ اس وقت ٹماٹر 250سے 350 روپےکلو فروخت ہورہے ہیں،آلو پیاز سبزیات کی قیمتوں میں بھی تین گنا اضافہ ہو چکا ہے جب کہ فروٹ ناقابل خرید ہو چکا ہے۔ دودھ دہی کی بھی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ گوشت عوام کی قوت خرید سے دور ہوچکا ہے۔گراں فروشوں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر رکھا ہے جنہیں کوئی روکنے والا نہیں۔بغور جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے اس وقت ناجائز منافع خور مافیا کا راج ہے۔ایسے میں غریب کیا کرے ؟ کسے پکارے ؟ کسے آواز دے ؟ کسے مسیحا کہے ؟ کیونکہ سب مسیحا تو سعودی عرب گئے ہوئے ہیں ۔حکومتی رٹ اپنی بے بسی پہ ماتم کناں ہے ،تاجر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں ، تاجر کند چھری سے گاہکوں کو ذبیح کرنے میں فخر محسوس کررہے ہیں۔باب بے بسی کی تصویر بنے کسی کونے میں اولاد سے منہ چھپائے بیٹھا ہے کہ اولاد کوئی فرمائش نہ کردئے کیونکہ خالی جیبیں فرمائشیں نہیں پوری کرتی ہیں ، صرف آنسو بہانے پہ مجبور کرتی ہیں ، اپنی بے بسی پہ رونا رولاتی ہیں ، منہ چھپانے پہ مجبور کرتی ہیں اے حاکم وقت! رعایا کی فریا سن ، اگر یہ فریاد رب کعبہ نے سن لی تو پھر تمہاری داستان نہ ہوگی داستانوں میں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.