واپڈا کا غریب کی انتڑیوں پر بچھایا دسترخوان

72

محاورہ ہے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی ، جبکہ ملک عزیز میں خاص و عام واپڈا کا ماتم محاورتاً یوں کرتے دکھائی دے رہا ہے کہ ” واپڈا رے واپڈا تیری کون سی کل سیدھی “ پاکستان میں اونٹ سے بیکار محکمہ واپڈا نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اسی لیے اس محکمے کے لیے اونٹ جیسے کارآمد جانور کا محاورہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اونٹ کی تو اگرچہ کوئی ”کل“ سیدھی نہیں مگر یہ انسانوں کے کام ضرور آتا ہے جبکہ واپڈا کی بھی کوئی ”کل“ سیدھی نہیں لیکن یہ انسانوں کے کام آنا تو دور کی بات ہے انہیں اذیت پہنچا کر سکون محسوس کرتا ہے۔
بد قسمتی سے آج کل لوگوں کی زندگی کا سارا دار و مدار اسی محکمے پر ہوگیا ہے۔اسی لیے اس کے بڑے حکام سے لےکر چھوٹے اہلکاروں تک کے نخرے بہت زیادہ ہیں۔ اب یہ نخرے لوگوں کی برداشت سے بھی باہر ہوتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے خودکشیوں تک کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ لیکن پھر بھی محکمے کے چلن میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ۔ اس بات کا اعتراف خود حکام بھی کررہے ہیں۔ شعبہ توانائی میں بد انتظامی کو تسلیم کرنے والے سابق دور کے وزیراعظم کے معائنہ کمیشن نے بھی اپنے بیانیے میں کہا تھا کہ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں نے جو نئے میٹر نصب کئے ہیں وہ پرانے میڑوں کی نسبت تیس سے پینتیس فیصد تیز چلتے ہیں۔ کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ محکمہ ان نئے میٹروں کی رفتار کو اپنی ضروریات کے مطابق ایڈجسٹ کر سکتا ہے ۔عام آدمی کو حکومتی سطح پر لوٹنے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پرلوگ اس بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں اس میں سے چند ایک پیش کرتے ہیں۔ سجادعالم لکھتے ہیں: عوام فکر نہ کریں ان حکمرانوں کے گناہوں والے میڑ بھی اللہ نے 70 فیصد تیز کر دیے ہیں۔ دنیا فانی ہے۔ قبریں ان کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہیں۔ وہاں ان کے مال نے کسی کام نہیں آنا- ندیم کا کہنا ہے کہ: جہاں حکومت اور ادارے چور ڈاکو اور لٹیرے بن جائیں اور عوام مجرمانہ غفلت کی نیند سوئے رہیں تو پھرتاریخ شاہد ہے کہ اس ملک اور قوم کو دعاؤں اور بے عمل جذبوں سے نہیں بچایا جا سکتا۔ ایک صاحب کا خیال ہے کہ ”یہ سب ان لوگوں نے اپنا پیٹ بھرنے کیلئے ہی تو کیا ہے“۔ یہ چور بے ایمان لوگ اگر حرام کھانا چھوڑ دیں تو ان لیڈروں کو مسلمان کون کہے گا۔ شرم مگر ان کو آتی نہیں۔امیر علی نے اپنی بات کچھ یوں کہی: ‘تیز چلنے کی بات تو اور ہے ۔ ہمارے بجلی کے میٹر کی کرنٹ ریڈنگ 330 یونٹ ہے ہمیں کرنٹ ریڈنگ 599 کے حساب سے بجلی کا بل آ گیا ہے۔ 269 یونٹ زیادہ۔ اب اس محکمے کو بندہ کیا کہے اور اپنی حکومت کو کیا کہے ۔ اور گزشتہ سال سے حکومت کی طرف سے جادوئی ٹیرف جس میں صارفین کو سال میں ایک بار 200 سے صرف شدہ زائد یونٹوں کو ٹیرف سلیب پالیسی کے نام پر آئندہ سالوں کے لئے” رگڑا “ لگانے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے اور تبدیل ہونے والے حکمران اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لئے آئے دن ٹیکس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ عوام کو کڑوی گولیاں دیتے رہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں یہ کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی۔ اپنے عیش عشرت ان کو نظر نہیں آتے۔راحیل عمران بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ان کی بات بھی سن لیں، ”بجلی پر سبسڈی بھی تو دینی ہے“ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام سے ہی وصول کرکے عوام پر ہی سبسڈی دینے کی بات کرکے احسان جتایا جاتا ہے۔ آخر میں ہم سلمان کی بات بھی بتائے دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ: عوام صرف رب تعالی سے مدد مانگتے ہیں۔ اس ملک کے حکمرانوں سے انصاف توبہ توبہ ۔
یہ تو ہوئی سوشل میڈیا کی بات۔ اب آتے ہیں کہ واپڈا کس طرح لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رہا ہے۔ آج سے چند دہائیوں قبل میڑ لگانے کا ریٹ پانچ سو روپے تھا اور یہ بغیر کسی سفارش کے لگ جاتا تھا۔ پھر جب اس محکمے میں کرپشن نے جڑ پکڑ لی تو میٹر لگانے کی فیس پندرہ سو روپے ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی پانچ ہزار روپے رشوت بھی دینی پڑتی تھی۔ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ واپڈا والوں نے بھی ریٹ بڑھا دئیے۔ میٹر کی فیس سرکاری قیمت ہزاروں روپے بڑھا دی گئی ہے جبکہ میٹر لگانے کے لیے کم از کم رشوت (وہ بھی احسان کے ساتھ) کم ازکم 10 ہزار سے 15 ہزار روپےتو دینی ہی پڑتی ہے۔ اگر صارف یہ رقم نہ دے تو میٹر لگانے کے لیے کم از کم پانچ چھ جوڑے جوتے گھسانے کے لیے پہلے ہی سے خرید لے۔ اگر دے دلا کر میٹر لگ گیا تو اب ٹھیک ٹھاک بل ادا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ بات صرف یہیں تک محدود رہتی تو پھر بھی مرتے کیا نہ کرتے، کے مصدق برداشت کرلیتے۔ لیکن معاملہ یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتا۔ صارف اور خاص طور سے شریف شہری صارف کو آس پاس کی چوری (واپڈا کی زبان میں لائن لاسز) کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑتی ہے۔ جہاں بھی چوری ہوگی اس کا بل بھی آپ کو بھرنا پڑے گا بلکہ اشرافیہ اور حکمرانوں کے بل بھی بے چارے غریب صارف کے کھاتے ڈاک دیئے جاتے ہیں، صارف لاکھ واپڈا کے دفتر کے چکر لگائے لیکن بل کم ہوتا ہے نہ اسے قسطوں میں ادا کرنے کی اجازت ہے۔ پورا بل یکمشت ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور بلکہ راقم کو اس بات کا تلخ تجربہ ہے کہ جب ہماری متعلقہ گیبکو کمپنی نے بزور بل ”مار دھاڑ “ کرنا ہوتی ہے تو تاریخ ادائیگی سے صرفایک روز قبل مخلتف نام نہاد ٹیکسوں اور بھاری قیمت کے بجلی بلوں کو صارفین کی جھولی میں پھینک دیا جاتا ہے اور بے چارا دو وقت کی روٹی سے مجبور غرب صارف کئی بار گھریلو قیمتی اشیاء بیچ کر اور کبھی سود پر رقم ادھار لے کر بل کی ادائیگی کرتا ہے۔ اسی لیے واپڈا کی مہربانیاں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ اب لوگ خودکشیوں پر مجبور ہورہے ہیں۔

ایسی کئی خبریں تو اب اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہیں کہ شریف شہریوں کے لیے یہ محکمہ ”شیر“ ہے جبکہ کرپٹ لوگوں کے لیے یہ بھیگی بلی کیوں کہ اسی محکمے کے کرپٹ لوگ ان بجلی چوروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اگر ایک طرف اس محکمے نے عام شریف صارف کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے تو دوسری طرف اس محکمے کے اندر ہزاروں اور لاکھوں کی نہیں بلکہ اب تو کروڑوں ، اربوں روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ اوپر سےےلیکر نیچے تک سب اس میں شامل ہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ خود کو انتہائی مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں واپڈا رے واپڈا تیری کون سی کل سیدھی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.