بے وقوف وزیر خزانہ

62


گذشتہ روز بھارتی میڈیا پر یہ حیران کن خبر چلی کہ بھارتی وزیر خزانہ نرملا ستھرامان نے کہا ہے کہ ان کے پاس لوک سبھا کے انتخابات لڑنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
نرملا ستھرامان کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے انہیں آندھرا پردیش یا تامل ناڈو سے انتخابات لڑنے کا اختیار دیا تھا۔
مگر سوچ وبچار کے بعد انہوں نے بی جے پی کے صدر کو بتایا کہ میرے پاس الیکشن لڑنے کے لیے درکار فنڈز نہیں ہیں۔ نرملا ستھرامان کا کہنا ہے کہ میں جے پی نڈا کی بہت شکر گزار ہوں
کہ انہوں نے میری دلیل کو قبول کیا اور اب میں الیکشن نہیں لڑ رہی ہوں۔جب میڈیا نے ان سے سوال کیا کہ ملک کی وزیر خزانہ کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے پیسے کیوں نہیں ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ بھارتی حکومت کا متفقہ فنڈ یعنی حکومتی خزانہ ان کا ذاتی فنڈ نہیں ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میری تنخواہ، میری کمائی اور میری بچت میری ہے نہ کہ بھارتی حکومت کاخزانہ۔ یعنی موصوفہ اس بار انتخابی کمپین پر اُٹھنے والے اخراجات کی رقم نہ ہونے کے سبب انتخابی دوڑ سے باہر ہوچکی ہیں۔
یاد رہے بھارتی پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا کے لئے عام انتخابات کا آغاز 19 اپریل سے ہو گا۔ پیارے پاکستانیوں ہے نہ حیران کن خبر؟
کاش یہ خبر بھارت کی بجائے پاکستان کے حوالہ سے سننے دیکھنے کو ملتی۔ بھارت کیسا بدقسمت ملک ہے
جہاں ان کے وزیر خزانہ کو اگلے انتخابات کے اخراجات پورا کرنے کےلئے قومی خزانہ سے چند کروڑ روپیہ نکالنے کی توفیق نہ مل سکی۔
کاش یہ وزیر خزانہ بڑے بڑے قومی پراجیکٹس سے تھوڑی سی کک بیکس کی رقم ہی بٹور لیتی۔
کاش اس بے وقوف عورت کوکوئی سمجھاتا کہ محترمہ کچھ ہوش کے ناخن لیں
اس قدر ایمانداری سے کام کرنے سے آپکی آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ کاش اس بے وقوف وزیرخزانہ کو کوئی سمجھاتا کہ محترمہ بھارتی قومی خزانہ اربوں کھربوں کاسمندر ہے
اور اس خزانہ سے چندکروڑ روپے نکلوا لینا ایسے ہی ہوتا کہ جیسا کہ سمندر سے چند بالٹیاں پانی نکال لیا جائے
تو سمندر کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کاش اس محترمہ کو عقل ہوتی تو بڑے بڑے ٹھیکداروں
اور ڈویلپرز سے تعلقات قائم کرتیں تاکہ ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز جاری کرتے وقت
یہ ٹھیکیدار انکا خیال ضرور رکھتے ۔کاش موصوفہ سمندر پار بے نامی کمپنیوں کی مالک ہوتیں
تو ان کے بے نامی بینک اکاونٹس میں لاکھوں کروڑوں ڈالرز کی فراوانی ہوتی ۔
کاش بھارتی جنتا پارٹی عقل سے کام لیتی تو اس محترمہ کو پاکستانی وزرائے خزانہ کی طرح مخصوص نشستوں سے منتخب کروانے یا پھر بالامقابلہ انتخاب جتوانے کا بندوبست کرتی۔
بھارت بھی کیسا بدقسمت ملک ہے جہاں انکودرآمد شدہ غیر منتخب وزرائے خزانہ نہیں ملتے ۔
دوسری طرف پاکستان کو ہی دیکھ لیں کہ چُن چُن کر غیر ملکی شہریت رکھنے والےافراد کو
پاکستان کے خزانہ کی رکھوالی پر رکھا جاتا ہے چاہے وہ شوکت عزیز ہو ں یا
حفیظ شیخ یا پھر حال ہی میں وزرات خزانہ کی کرسی پر براجمان ہونے والے
محمد اورنگزیب یا پھر رضا باقر کی شکل میں سٹیٹ بینک کے گورنر کی
تعیانی۔ اور ان درآمد شدہ افراد کے لئے وزارت خزانہ کی کرسی میں حائل تمام رکاوٹوں کو
یکے بعد دیگرے انتہائی نفیس انداز سے ختم کروایا جاتا ہے۔ ماضی کو چھوڑیں
ابھی حال میں وزارت خزانہ کی مسند پر براجمان ہونے والے محمد اورنگزیب صاحب کو دیکھ لیں
کہ موصوف کی نامزدگی کے وقت تک ہالینڈ کی شہریت تھی
اور پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بھی آئین پاکستان میں درج سہولت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے
ان کو وزارت خزانہ سونپ دی گئی اور بعد ازاں موصوف کو سینٹ کا منتخب ممبر بنوایا جا رہا ہے۔
ایک طرف بھارت دنیا کی اُبھرتی ہوئی بڑی معاشی طاقت بننے جارہا ہے
جہاں اس کے وزیر خزانہ کے پاس آئیندہ انتخابی مہم کے لئے چند لاکھ یاکروڑ روپے دستیاب نہیں ہیں
دوسری جانب قرضوں میں جکڑی ہوئی ریاست پاکستان جسکی معیشت اور
سالانہ بجٹ کا انحصار پاکستانی عوام کے ٹیکسوں کے ذریعہ خون نچوڑنے کے علاوہ
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں پر ہے
یہاں منتخب نمائندوں کی بجائے غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد ہی اولین ترجیح ہوتے ہیں ۔
ظاہری سی بات ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے جب قرض دیں گے تو
ان کو اپنی قرض کی رقم کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے انہی کے اداروں میں کام کرنے والے
افراد کو وزیر خزانہ یا سٹیٹ بینک کا گورنر تعینات کروایا جاتا ہے۔
جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک بھارت کو اپنا دوست ملک قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ہم لاکھ مرتبہ بھارت کو اپنا ازلی دشمن قرار دیں یقینی طور پر اس میں شک کی گنجائش بھی نہیں ہے
لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارت میں آزادی کے حصول کے بعد
جمہوریت کے تسلسل اور سیاسی استحکام نے بھارت کو بطور ریاست اپنے پاوں پر کھڑا کر دیا ہے۔
اس وقت بھارتی ریاست عالمی طاقتوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نظر بھی آ رہی ہے۔
دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ کاش پاکستان میں صحیح معنوں میں جمہوریت کا
تسلسل اور دائمی سیاسی استحکام قائم ہوجائے تاکہ بھارتی وزیر خزانہ نرملا ستھرامان
جیسی خبریں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی سننے دیکھنے کو ملیں۔

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ

29/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-8-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.