اے وطن ہم لٹیں گے کب تک تیری خاطر

65

نام اسلامی جمہوریہ پاکستان لیکن یہاں اسلام اور جمہوریت خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
کہنے کو اک فلاحی ریاست لیکن حد درجہ مہنگائی کی چکی میں پستی عوام فلاح کے اصل معانی سے بھی حد درجہ محروم ہیں۔
اگر ہم آج سے 76 سال پہلے کا زمانہ سوچیں تو تحریک پاکستان کے کارکنوں نے کیا کیا خواب دیکھے ہوں گے۔
اور اگر ان کارکنوں میں سے کوئی آج زندہ ہو اور اس سے پوچھا جائے تو شاید وہ رو رو کر واپس پہلے زمانے میں ہی جانے کی خواہش کرے گا۔
تحریک پاکستان کے گمنام سپائیوں کی ویران قبور میں پڑے شہید اپنی شہادتیں رائیگاں جانے
اور اک غیر فلاحی ریاست میں تڑپتی اپنی نسلوں کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہوں گے۔
“پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔لا الہ اللہ” اور “لے کے رہیں گے پاکستان۔۔۔بن کے رہے گا پاکستان” کے نعروں پر اپنی جانیں فدا کر دینے والے لوگوں نے کیا کیا سہانے سپنے نہ دیکھے ہونگے۔۔
کیا قائد اعظمؒ کی مسلم لیگ کے جھنڈے تلے آزاد فلاحی مملکت کے خواب دیکھنے والا کوئی کارکن آج زندہ ہو تو اسے موجودہ جھنڈے دیکھ کے اپنی آنکھوں پر یقین آئے گا
اور کیا وہ اپنے غلط ہو کر اپنی نسلوں کو غرق کر دینے پر خود کو معاف کر پائے گا؟
کیا پاکستان بن جانے کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرنے کا دکھ دیکھنے والی آنکھیں جب آتے آتے
لُٹ جانے کے باوجود خوابوں کی دھرتی پر قدم رکھنے کے بعد سالوں اور
پھر نسلوں محرومیاں در محرومیاں دیکھ دیکھ کر مایوس ہو رہی ہونگی تو انہیں سکھوں اور ہندوؤں کے کے ظلم کم نہ لگتے ہوتے ہونگے۔
شاید کبھی ہم “پاکستان کامطلب کیا” کے نعرے سے بہکے تو کبھی “ادھر تم ادھر ہم” کے نعرے سے
ہمارے جزبات مجروع ہوئے۔روٹی کپڑا اور مکان” ، “نو ستارے بھائی بھائی”، جیسے
ان نعروں سے ہوتے ہوئے “سب سے پہلے پاکستان” ، “ووٹ کو عزت دو” ، “نیا پاکستان” ، “ویلکم ٹو پرانا پاکستان” اور پتہ نہیں
کیسے کیسے نعروں سے بہلتی عوام اب اس مقام پر ہے کہ گیس بجلی کے دیکھ کر
ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ والا زمانہ بہتر لگتا ہے۔ کب تلک عوام خورشید اکبر کے
اس شعر کے مطابق ہی گزارا کرتی رہے گی

ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے

نہ رکنے والی مہنگائی کے ہاتھوں حالات کچھ اس طرف جارہے ہیں کہ
ہماری غریب عوام دنیا کے عام سے ممالک کے مقابلے بھی ضروریاتِ زندگی کے معاملے میں
بے حد ےکلیف سے گزر رہی ہے۔
آٹا، دودھ،بجلی، گیس،دالیں، سبزی، کپڑے، سکول غرض ہر چیز عوام کے ہاتھوں سے دور جارہی ہے
مگر حکمران صرف کرسی کے کھیل میں مگن ہیں اور عوام کو نعروں، ترانوں اور
جھوٹے آسروں کی نیند میں مبتلا رکھ کر مار رہے ہیں۔بقول شاعر:

یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے

آخر میں نا امیدی کے بت توڑ کر یہی باتیں دھراتے ہوئے دعا ہے کہ کلمے کے نام پر
رمضان کے مہینے میں بننے والی اس ریاست کا غریب اپنی قربانیوں کا صلہ پانے کی امید میں
نسل در نسل بے حال ہو چکا ہے۔
چند خاندان روٹی، کپڑا اور مکان لے اڑے، چند مسالک کے سیاسی مولانے کلمے کی روح پر
سب کو ایک کرنے کے بجائے اپنی اپنی مسندیں بنا اور سجا بیٹھے اور
عوام دین کہ اصل روح یعنی اللہ کی رسی سے بھی دور کر دیے گئے اور روٹی کپڑا مکان بھی نہ رہا۔۔
اے اللہ ان کے حال و حالات پر رحم فرما ، ظلم کے استعاروں اور نعروں سے ان کی جان بچا
اور اس ملک کو وہ حکمران دے کہ جو عوام کی تقدیر بدل کر اس ملک کو
اصل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکل دیں۔۔۔
آمین ثم آمین۔

تحریر۔۔عاصم نواز طاہرخیلی

08/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-5-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.