اسرائیلی مظالم پردنیا کی خاموشی
روداد خیال ۔۔۔۔صفدر علی خاں
اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر تابڑ توڑ حملوں نے عالمی برادری کی بے حسی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے ،اقوام متحدہ کے سیکڑوں کارکنوں کے قتل عام پر بھی اسرائیل کو دہشتگرد تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے ؟,ہسپتالوں اور سکولوں میں یہودی فوج کے حملوں سے ہزاروں معصوم بچوں کی شہادت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اسرائیلی جنگی جرائم کیخلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلانےکی بھرپور مہم کیوں نہیں چلائی گئی ،مسلم ممالک نے اب تک مظلوم فلسطیمنیوں کے قتل عام پر یہودی پراڈکٹس کا ملکر بائیکاٹ کیوں نہیں کیا؟ ،صرف ترکیہ کی پارلیمنٹ نے ایک قرار داد کے ذریعے اسرائیلی پراڈکٹس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور فوری طور پر ترک پارلیمان کے کیفے ٹیریا سے یہودی پراڈکٹس کو ہٹایا بھی گیا مگر ترکیہ بھر میں اب تک یہودی مصنوعات پر عملی طور پر کوئی پابندی نہیں ،اسی طرح عرب ممالک کی اپنے تئیں موثر سمجھی جانے والی تنظیم او آئی سی کے اجلاسوں میں اسرائیل کے فلسطینیوں پر حملوں کی کھل کر مذمت تو کی گئی مگر حملے روکنے کیلئے کوئی واضح لائحہ عمل پیش نہیں کیا گیا ۔تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم نے اب تک تو اسرائیل اور اسکے حامیوں کو تیل کی سپلائی ہی بند نہیں کی اس کے بعد زبانی کلامی مذمت کرنے کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا ۔کیونکہ خالی مذمتی بیانات سے اسرائیل کو ظلم سے روکنے کی حکمت یکسر ناکام رہی ہے ،اسلامی ممالک کی فوج بھی قائم کی گئی تھی ،اسلامی فوج کے قیام کو بھی اب تو کئی برس بیت گئے ،سعودی عرب میں اسلامی فوج کی سربراہی کرنے والے سابق ہردلعزیز آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اس فوج کی طرف سے تاحال کوئی خاص کام تو سامنے نہیں آیا ،البتہ اب جاکر اسرائیل کے فلسطینی شہریوں ،خواتین ،بزرگوں اور بچوں کے قتل عام نے اسلامی فوج کے قیام کا جواز فراہم کردیاہے مگراسلامی فوج کے غیر فعال کردار نے اسرائیل سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کیخلاف مظالم جاری رکھنے والے دہشتگردوں کے حوصلے بڑھائے ہیں ۔یہودی فوج نے غزہ کے تمام ہسپتالوں کو قبرستانوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔فلسطینی شہریوں پر مسلسل 44ویں دن بھی اسرائیلی بمباری جاری رہی اور لاکھوں عمارات ملبے کا ڈھیر بنادی گئی ہیں۔دریں اثناء بیس سالہ فلسطینی خاتون پلیستا الاقاد نے بتایا کہ سانس لینا دشوار ہوگیا ہے ،غزہ میں ہر طرف بارود کی وجہ سے آسمان دن رات تاریک رہتا ہے۔میں نے ساری عمر غزہ میں گزاری ہے اور اب میں اس کی گلیوں کو نہیں پہچان سکتی۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پانی، بجلی، خوراک اور تمام ضروریات زندگی کی اشیا ختم ہوچکی ہیں۔ فلسطینی خاتون نے انسانی المیے کی جو کہانی سنائی ہے دنیا کو اس پر دھیان دینے کی فوری ضرورت ہے ،امریکی بیانیہ فلسطین میں یہودی فوج کی بربریت پر پسائی اختیار کرچکا ہے ،ادھر ایران نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے بمباری نہیں روکی تو جنگ کے کئی محاذ کھل جائیں گے۔دنیا بھر میں اسرائیلی فوج کے فلسطینیوں پر حالیہ مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں ،عالمی برادری اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات ختم کررہی ہے ۔چلی اور کولمبیا جیسے ممالک نے اسرائیل سے تعلقات ختم کرکے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے تو اب مسلم ممالک کو بھی اسی انداز میں اسرائیل کے خلاف کچھ عملی اقدامات اٹھانا ہونگے ۔اسرائیل نے امریکا سمیت دنیا بھر کے اہم ممالک کی طرف سے جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے ،غزہ میں اقوام متحدہ کے سکول پر بمباری سے درجنوں بچے اور جبالیہ کیمپ پر حملے میں 80افراد کو لقمہ اجل بنا دیئے جانے پر دنیا کی خاموشی نہیں ٹوٹی ،ہزراوں معصوم بچوں ،عورتوں اور شہریوں سمیت 15ہزار فلسطینی شہید کئے جاچکے ہیں ،ترکیہ کے صدر طیب اردوان کہتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانے کیلئے شواہد موجود ہیں۔ایران میں اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف زبردست مظاہرے شروع ہوچکے ہیں لیکن غزہ میں پانی ہے نہ بجلی ،خوراک کیلئے بلکتے بچے بمباری کا شکار ہورہے ہیں اور یہ سب ممالک،اقوام متحدہ سمیت کب تک اپیلیں کرتے رہیں گئے اور دنیا کے دیگر ممالک بشمول عرب ممالک کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟ کیا ان کے تماشائی بنے رہنے سے یہ سب مستقبل میں چھڑنے والی ایک بڑی جنگ سےبچ سکیں گے تو یہاں میرا جواب ہے “نہیں “،دنیا فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے حملوں کے اثرات سے نہیں بچ سکے گئی ،عالمی برادری کو اپنی اس خاموشی کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ۔عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے باوجود کسی نے اسرائیلی دہشتگردی پر اسکے خلاف کوئی خاص عملی اقدام نہیں کیا ،دنیا کی یہ خاموشی ایک نئی ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے اور پھر دنیا کو اس نئی جنگ پر صرف تباہی کا سامنا ہی کرنا پڑے گا ۔