کالم۔ تیرا وجود الکتاب

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

6

انسان، زمین اور پھر انسان کا زمین پر رہنا سہنا۔ انسان زمین پر کب آیا اور کیوں آیا۔ کہاں سے آیا اور اس کے بعد اس کو کدھر جانا ہے۔ دوران قیام اس کا کس نوعیت کا کردار ہونا چاہیئے اور اس کردار کی ادائیگی کے نتیجے میں جزا سزا کا کیا کوئی نظام ہے یا پھر ہم سب شتر بے مہار ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ارتقا کا سفر اور اس سفر میں بھی تسلسل کا ایک پہلو ۔ ان سارے پہلوؤں کو جاننے کے لئے صانع و خالق کائنات نے انبیاء کے ذریعے کلیریٹی دی ہے۔ انبیاء کا یہ سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک آکر اپنے معراج کو پہنچ جاتا ہے اور باقاعدہ کتاب مبین میں یہ واضح کردیا جاتا ہے” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا” آج ہم نے آپ کے لئے آپ کا دین مکمل کردیا اور آپ کے لئے نعمتیں تمام کردیں اور آپ کے لئے دین اسلام پسند فرمایا۔ بات کسی شخص کی پسند نا پسند کی نہیں ہے بات اللہ کی ہے اور اللہ تعالی کا آخری نبی محمد الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو راتوں رات عرش پر بلانا اور پھر جانے جان والا یا لے جان والا تاہم کلائمکس۔ دنیا وآخرت میں اللہ کے نعمتیں سبحان اللہ سبحان اللہ اور بے شمار ان گنت لیکن یہ ساری نعمتیں ایک طرف اور محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ظہور اور ہمارا ان کا امتی ہونا ایک طرف۔ ہمارے لئے اس نعمت سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہے کیونکہ ہم امت محمدی کی بدولت ممتاز ٹھہرے۔ فبای الا ربکما تکذبان۔اس سے بڑا ہم پر اللہ کا اور کیا احسان اور انعام ہو سکتا ہے۔ بجز شکر کے۔ چپ کر مہر علی اتھے جا نئیں بولن دی۔فضل اللہ یوتی من یشاء( حاصل ہے مجھے نسبت سرکار مدینہ۔۔۔اللہ رے یہ شفقت سرکار مدینہ)
ایک ہستی اور وہ ہستی بھی سب سے منفرد۔ ان کا دنیا میں آنا۔ اہل عقل وفکرودانش یقیننا کہیں گے کہ ان کا فرش پر قدم رنجہ فرمانا اور عرش اور فرش پر ایک کیف وسرور، جذب ومستی اور سبحان اللہ مااجملک ما احسنک ما اکملک۔ روایات میں ہے کہ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے بیان کیا کہ جب آپ ص کے ظہور کا وقت قریب آیا تو وہ کعبہ شریف میں بیٹھے تھے اور انہوں نے کعبے کو جھومتے ہوئے دیکھا اور کعبہ جھومتے جھومتے ان کے گھر کی طرف جھک گیا تھا۔ اس کے بعد کور نظر تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اہل نظر بہت کچھ کہیں گے۔ یقیننا اللہ تعالے کے آخری نبی اور رسول دنیا میں تشریف لائیں اور کائنات ارض وسما اس جمالیاتی منظر کو محسوس نہ کرے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار آپ کے سفر شام کے دوران بحیرا راہب نے کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے نبی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو ایسا کیسے محسوس ہوا تو اس نے عرض کی تھی کہ جب آپ شام کے بازار میں تشریف لارہے تھے تو اس نے دیکھا کہ مناظر فطرت آپ کے سامنے جھک رہے تھے اور اس سلسلے میں اس نے انجیل میں آخری نبی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی پڑھی تھی۔ یوں آپ کا دنیا میں تشریف لانا کائنات ارض وسما کا اہمیت کے اعتبار سے سب سے بڑا واقعہ تھا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کے تشریف لانے سے تہذیب وتمدن اپنی معراج کو پہنچ گئی، شریعت وطریقت اور معرفت بھی اپنی معراج کو پہنچ گئی۔ نبوت اور رسالت واقعی معراج کو پہنچ گئی اور ابدی تعلیم قرآن مجید کی صورت میں اپنی معراج کو پہنچ گئی۔ نبوت کا سلسلہ تمام ہوا اور آنے والے سب لوگوں کے لئے شریعت محمدی حجت قرار دے دی گئی۔ اللہ تعالی نے صراحت سے وضاحت فرمادی قل ان کنتم تحبون اللہ فالتبعونی یحببکم اللہ۔ ترجمہ اے نبی ان لوگوں سے فرما دیں اگر آپ اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو میری
اتباع کریں اللہ ان سے محبت فرمائیں گے اور کتاب مبین میں اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کو لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ اطاعت و اتباع اسی صورت میں ممکن ہے اگر پیروی کرنے والا رسول سے محبت کرے ایسی صورت میں ہی اس میں سنجیدگی اور پختگی پیدا ہوتی ہے شاید اسی لئے حضرت علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا( مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست۔۔۔اگر بہ او نہ رسیدہ تمام بو لہبی است) اور کسی اور شاعر نے بھی کیا خوب کہہ دیا( محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے۔۔۔اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے) دین مکمل ہو گیا ہے اور اس دین متین کو سمجھنے کے لئے قرآن مجید فرقان حمید کا عمیق مطالعہ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ کا گہرا شعور حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ بصورت دیگر جتنے منہ اتنیاں گلاں اور فرقہ بندی۔ ( فرقہ بندی ہیں کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں۔۔۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ بڑے احتیاط اور احتیاج کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ امت کے ہر شخص میں اس بابت کاگہرا شعور پیدا کیا جائے اور ان پر واضح کیا جائے کہ فرقہ بندی نے اس امت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور قرآن واحادیث میں فرقہ بندی کی مکمل بیخ کنی کی گئی ہے اور المسلم اخو المسلم پر پورا زور دیا گیا ہے تاکہ آپس کی باہمی رنجشوں کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے اور اتحاد بین مسلمین کا پیغام گھر گھر تک پہنچا کر امت مسلمہ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ یہ امت اللہ اور رسول کے پیغام کو نیک نیتی اور خوش اسلوبی سے دنیا کے ہر کونے تک پہنچا سکے اور پوری دنیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے فیوض وبرکات سے بہرہ ور ہو سکے۔
ربیع الاول کا بابرکت

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.