انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا

افکارِ تازہ تحریر۔۔۔ڈاکٹر افتخارالحق

12

غالب کے اس شعر کی آفاقیت جتنی عصرِ حاضر میں دکھائی دیتی ہے ، ماضی قریب ، لگ بھگ تین عشرے قبل تک، شاید ان معنوں میں نہ تھی جن کی طرف شعر کا متن اشارہ کرتا ہے ۔ مغربی ترقی یافتہ ملکوں میں تو انٹرنیٹ کی آمد ۱۹۷۰ اور روایتی / ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی یلغار ۱۹۸۰ کی کی دہائی میں شروع ہوچکی تھی ۔ پھر پاکستان سمیت بیشتر ممالک نے موبائل فون کی آمد کا نظارہ کیا جس کا نقارہ پہلے ٹیلی فیکس اور پھر پیجر کی صورت کئی سال تک بجتا رہا ۔ اکیسویں صدی کی ابتدا ہی برقیاتی مواصلاتی نظام یعنی ٹیلی کمیونیکیشن کے انقلابی دور سے ہوئی اور انسانی معاشرے نے یکجا ہوتے ہوئے منتشر ہوتے چلے جانے کے نادر مگر بڑی حد تک موذی مرض سے پینگیں بڑھانا شروع کیں ۔ ہوا یوں کہ ۲۰۰۹ میں ایک ناول “ حادثاتی ارب پتی / The Accidental Billionaire سے متاثر ہو کر تاریخ و رحجان ساز فلم “ سماجی جال / The Social Network “ بنائی گئی جو مارک ذکربرگ کے لیے ایک طاقتور محرک ثابت ہوئی ۔اس سپر ہٹ فلم میں فیس بک کا تذکرہ تھا اور یوں اس نے دنیا کو سماجی برقیاتی ابلاغ یعنی سوشل میڈیا سے بروشناس کرا دیا ۔اسی کامیابی کے سبب جون ۲۰۲۵ میں فلم کے حصۂ دوم پر کام شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ انسان نے صدیوں سے قلم کے ساتھ اپنے اظہار کا جو رشتہ برقرار رکھا ہوا تھا ، اس نے ایک نہایت طویل جست لگائی اور الفاظ لوح و قرطاس کی منازل پھلانگتے ہوئے برقیاتی پردۂ سیمیں / کمپیوٹر سکرین پر نمودار ہونے لگے ۔ لطف کی بات یہ کہ جتنی انگلیاں قلم سے لکھنے میں استعمال ہوتی ہیں ، کم و بیش اتنی ہی انگلیوں سے قدرے مختلف ترتیب و تنظیم سے انسان کمپیوٹر اور پھر موبائل فون کی سکرین پر لکھتے ہوئے مستفید ہوتا ہے ۔ البتہ موبائل سکرین پر بہت سے لوگ دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی سے ہی لکھنے کا عمل کرکے اس ارتقائی سفر کی شہادت بھی دیتے ہیں ۔ غالباً اس سے اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ “ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ “کے مصداق یہی سکرینیں چشم و ابرو کی جنبش کی اطاعت کرتے ہوئے انگشت نمائی کی رسم کا خاتمہ کر ڈالیں ۔
رفتہ رفتہ کاغذ کی بجائے ایک روشن سکرین پر انگشت فرسائی کے عمل میں جتنی حیرت انگیز تیزی آتی گئی اتنی ہی پریشان کثرت بھی دیکھنے میں آئی۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلا کہ ایک طرف تخلیقی اذہان نے اپنے طریقِ تحریر کو بدلا تو دوسری طرف انسانی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس کے منفی استعمال کی طرف راغب ہوا۔ اٹائپنگ کی کثرت سے انگلیوں کی پوریں فگار ہونے لگیں اور قلم احتجاجاً خون کے آنسو رونے لگا کہ ہمارے عہد کے بچے جنھیں معصومیت کا شہکار ہونا تھا ، کئی ناشائستہ الفاظ و مناظر سے متعارف ہو کر صرف چالاک ہی نہیں بلکہ کچھ نامناسب حد تک بیباک بھی ہونے لگ گئے ۔ وہ دنیا جس کیلیے عالمی گاؤں کی اصطلاح رائج ہوئی ، اس کے باسی محفل میں ہوتے ہوئے بھی موبائل سامنے رکھ کر کہیں اور ہونے لگ گئے ۔ شام کو مل بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کے کلچر کی وفات ہوئی کیونکہ ٹی وی دیکھتے ہوئے ، کھانا کھاتے ہوئے ، حتّی کہ ایک دوسرے سے کسی اہم موضوع پر گفتگو کرنے کے دوران بھی اچانک موبائل کی ٹون بیدار ہونے یا سکرین روشن ہونے پر متعلقہ شخص “ سوری! بہت ضروری کال ہے” کہہ کر سب کو ہکّا بکّا چھوڑ کر کال سننے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ موبائل فون اور لیپ ٹاپ یقیناً کسی طور بھی محض آلاتِ تعیّش نہیں ہیں لیکن ان کے ساتھ اس حد تک جڑتے چلے جانا کہ ماحول ناخوشگواری کا شکار ہوجائے ، کسی طرح مناسب نہیں ۔ ہم اکٹھے بیٹھ کر بھی اس شعر کی تصویر بننے لگے ہیں:
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا!!!!!
گو یہ معاملہ وقت کے ساتھ انسان کے بیشتر کام آسان بنا رہا ہے لیکن جیسے کئی عشروں تک انسان کو صنعتی انقلاب سے ہر طرف خوشحالی ، مصروف زندگی اور اس کے مثبت ثمرات ہی دکھائی دیتے رہے تآنکہ ماحولیاتی آلودگی ، اوزون کی تہہ میں شگاف کی پریشان کن خبریں آنے لگیں ، اسی طرح موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی چکاچوند نے فی الوقت تو انسان کو اس بظاہر بے ضرر نشے کا عادی بناتے ہوئے اسے کچھ اور سوچنے سے منع کر رکھا ہے ۔ تاہم یہی وقت ہے کہ ان جدید ترین مواصلاتی آلات کے ممکنہ دور رس مضمرات پر اہلِ قلم و دل کو گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ سکرین ٹائم کا ایک خاص حد سے زیادہ ہونا کسی طور صحت مند اشاریہ نہیں کیونکہ کئی لوگوں میں اس سے آنکھوں کے غیر ضروری حد تک خشک ہونے کی شکایت ماہرینِ امراضِ چشم کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگی ہے اور ایسا ان لوگوں میں بھی دیکھا گیا ہے جو نہ صرف سکرین پر حفاظتی پردہ لگواتے ہیں بلکہ عینک میں بھی نقصان دہ شعاعوں سے بچنے والے عدسے یعنی Antiglare glasses استعمال کرتے ہیں ۔اسی طرح کم عمر بچے جسم کو ایک ہی حالت میں گھنٹوں رکھے موبائل سے چپکے رہتے ہیں اور اس کا ممکنہ نتیجہ قامتی نقائص / Postural deformities کی صورت نمودار ہونے کا قوی اندیشہ ہے ۔ ہم سب کو مل کر ان متوقع خطرناک امور پر غور کرتے ہوئے ایسا لائحۂ عمل دریافت کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہم اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے آنکھوں جیسی بیش قیمت نعمت اور دیگر جسمانی اعضا و افعال کی مناسب دیکھ بھال کرنے کے قابل ہوں ۔ یہ مسئلہ بیک وقت طبّی ، نفسیاتی ، سماجی اور معاشی جہات رکھتا ہے اور اسی لیے اس کی بابت آگہی کی مہم چلانا جہاد بالقلم کا درجہ رکھتا ہے:
اک فون پر کبھی تو کبھی لیپ ٹاپ پر
لکھ لکھ کے بھی نہ ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.